کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 362
"وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ""اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔"[1]
واضح رہے والدین پر مال خرچ کرنا حسن سلوک میں شامل ہے بلکہ ان کے ساتھ بہت بڑا احسان ہے۔
والدین پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد پر مال خرچ کریں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"’’اور باپ کے ذمے ہے کہ ان (کی ماؤں) کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا دے۔‘‘[2]
واضح رہے والدین کے ذمے اولاد کا خرچ اس قدر واجب ہے جو ان کی حسب طاقت ہواور اس شہر کے باشندوں میں معروف ہو۔اس میں نہ فضول خرچی ہواور نہ کنجوسی سے کام لیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے کہا تھا :
"خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ " ’’خاوند کے مال میں سے اس قدر لے سکتی ہو جو تجھے اور تیری اولاد کے لیے مناسب اور کافی ہو۔‘‘ [3]
خرچ کرنے والا اپنے جن اقرباء کا صاحب فرض یا عصبہ کی حیثیت سے وارث ہوتا ہے اگر وہ محتاج ہوں تو بقدر استطاعت ان کی ضروریات کو پورا کرنا اس پر فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ "’’وارث پر بھی اس جیسی ذمے داری ہے۔‘‘[4]
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ باہم وارث بننے والوں کے درمیان جو قرابت ہے وہ اس امر کی متقاضی ہے کہ خرچ کرتے وقت وارث کا غیر وارث کی نسبت زیادہ خیال رکھا جائے۔علاوہ ازیں اس میں صلہ رحمی بھی ہے ،جس کی دین اسلام میں نہایت اہمیت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ" ’’اور رشتے داروں کا حق ادا کرتے رہو۔‘‘[5]
مزید برآں بہت سی ایسی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مالدارلوگوں پر فرض ہے کہ اپنے محتاج اقرباء پر خرچ کریں۔ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أُمَّكَ وَأَبَاكَ, وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ " "تیری والدہ، تیرا والد ، تیری بہن اور تیرا بھائی۔[6]
ایک اور روایت میں ہے:
[1] ۔الانعام6/151۔
[2] ۔البقرۃ:2/233۔
[3] ۔صحیح البخاری، النفقات، باب اذا لم ینفق الرجل ،حدیث:5364۔
[4] ۔البقرۃ2/233۔
[5] ۔بنی اسرائیل17/26۔
[6] ۔سنن ابی داؤد ،الادب، باب فی بر الوالدین ،حدیث: 5140۔