کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 361
اولاد کو بقدر ضرورت اخراجات کے لیے مال نہیں دیتا۔
یہ جملہ احکام "شریعت اسلامی"کے کامل ہونے پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ ہرحق والے کو اس کا حق دینے کی رغبت دلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شریعت کا مقام دوسری شریعتوں سے بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سزا دےجو اسے چھوڑ کر کافرانہ قوانین اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ "
"کیا یہ لوگ پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں، یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔"[1]
اقرباء اور غلاموں کو نان و نفقہ دینے کا بیان
یہاں اقرباء سے مراد انسان کے وہ قریبی رشتے دار ہیں جو صاحب فرض یا عصبہ کی حیثیت سے وارث ہوتے ہیں:اور "مملوک "سے مراد غلام ،لونڈی اور چوپائے وغیرہ ہیں۔
اقرباء پر خرچ کرنا تب واجب ہے جب وہ:
1۔ بنیادی نسبی تعلق رکھتے ہوں، مثلاً:خرچ کرنے والے کے والدین، دادااور پردادا وغیرہ ۔اسی طرح اس کی اولاد بیٹا، بیٹی، پوتا اور پوتی وغیرہ۔
2۔ جس پر خرچ کیا جائے وہ اس قدر تنگ دست ہو کہ کسی شے کا مالک نہ ہو یا بقدر کفایت مال کا مالک نہ ہواور کام کاج کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
3۔ خرچ کرنے والا مالدار ہو، اس کے پاس اس قدر مال ہو جو اس کے اور اس کے اہل و عیال اور مملوک کی حاجت و ضرورت سے زائد ہو۔
4۔ خرچ کرنے والے اور جس پر خرچ کیا جا رہا ہے دونوں کا دین ایک ہو۔
5۔ جس فرد پر خرچ کیا جائے اگر وہ خرچ کرنے والے کی اولاد یا آباء واجداد میں سے نہیں تو ایک اضافی شرط یہ ہے کہ خرچ کرنے والا اس کے ورثاء میں سے ہو۔
والدین پر بقدر ضرورت خرچ کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] ۔المائدہ:5/50۔