کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 36
کاروبار کرنے والے کو بہت سخت وعید سنائی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ " "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جسے شیطان نے چھو کر خبطی(بدحواس) کردیا ہو۔"[1] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ سودی معاملات کرنے والے قیامت کو اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے جیسے آسیب زدہ آسیب کی حالت میں کبھی اٹھتا ہے کبھی گرتا ہے(پھراٹھتا ہے،پھر گرجاتا ہے) اس لیے کہ دنیا میں سود خوری کی وجہ سے ان کے پیٹ،بہت بڑے اور بھاری ہوں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو سود کی حرمت سے واقف ہونے کے باوجود سودی لین دین کرتا ہے،یہ وعید سنائی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا،چنانچہ ارشاد ربانی ہے: "وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ" "اور جس نے پھر بھی(سودی کاروبار) کیا تو وہ جہنمی ہے ،ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔"[2] جس مال میں سود کی آمیزش ہو اس میں برکت وخیر ختم ہوجاتی ہے،چاہے جس قدر بھی بڑھ جائے،بے برکت ہی رہے گا۔اس مال سے سود خور استفادہ نہیں کرپاتا بلکہ وہ مال باعث وبال بن جاتا ہے۔دنیا میں پریشانی اور آخرت میں عذاب کا سبب ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا" "اللہ سود کو مٹاتا ہے۔"[3] اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والے کو کفار اوراثیم(سخت گناہ گار) قراردیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ" "اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے اورگناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"[4] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاً یہ فرمایا کہ وہ سود لینے دینے والے سے محبت نہیں کرتا۔واضح رہے کہ کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے محبت نہ کرنے کا مطلب ہے کہ وہ اس سے بغض وناراضی رکھتاہے،پھر اسے(كَفَّارٍ) کہا جس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی نعمت کی انتہائی ناقدری اور کفران کرنے والاہے لیکن ملت اسلامیہ سے خارج نہیں،لہذا
[1] ۔البقرۃ 2/275۔ [2] ۔البقرۃ:2/275۔ [3] ۔البقرۃ:2/276۔ [4] ۔البقرۃ:2/276۔