کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 35
چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہے،مثلاً:جواہر یا کتابیں وغیرہ تو مشتری اسے جب ہاتھ میں لے گا تو صحیح قبضہ ہوگا۔اگر فروخت شدہ چیز دوسری منتقل نہ ہوسکے،مثلاً:مکانات،زمین اور درختوں پر پھل وغیرہ تو اس کا قبضہ ایسے ہوگا کہ مشتری کے زمین پر کنٹرول سنبھالنے اور مالک کی طرح تصرف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔اسی طرح مکان ہوتو اس کی چابی حاصل کرنے اور اس کا دروازہ کھول لینے سے قبضہ ہوگا۔
اکثر لوگ سودا کرلینے کے بعد اس کا قبضہ لینے میں سستی کرتے ہیں اور شرعی قبضہ حاصل کیے بغیر اس شے میں تصرف کرتے ہیں اس طرح وہ ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ جھگڑوں اور اختلافات میں پڑ جاتے ہیں یاجب سودے کی حقیقت حال واضح ہوتی ہے تو نادم وشرمسار ہوتے ہیں۔بسا اوقات لڑائی جھگڑے بلکہ مقدمہ بازی تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔اس طرح جو شخص بھی حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے تو لازماً اس کا مقدر ندامت اور پریشانی ہے۔
اگر مشتری یا بائع کو بیع کرلینے کے بعد ندامت ہویابیع کرنے کے بعد مشتری کو اس چیز کی ضرورت نہ رہے یا اس چیز کی قیمت ادا کرنے میں مشکل پیش آجائے تو ان صورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وترغیب یہ ہے کہ بھائی کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے بیع ختم کردی جائے اور اسے سودا لینے یادینے پر مجبور نہ کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللّٰهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "
"جس نے مسلمان کے ساتھ اقالہ کیا(اس کے مطالبے پرعقد کو ختم کیا) اللہ تعالیٰ روزقیامت اس کی لغزشیں واپس(معاف) کرے گا۔"[1]
اقالہ کا معنی ہے عقد کو ختم کردینا اور عاقدین میں سے ہر ایک کا اپنی چیز کو کمی بیشی کے بغیر وصول کرلینا اور بوقت حاجت یہ ایک مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر حق ہے،حسن معاملہ ہے اور دینی بھائی چارے کا تقاضاہے۔
سود اور اس کا حکم
سود کا موضوع نہایت اہم اور نازک ہے جس کی حرمت پر تمام سابقہ شریعتیں متفق رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سودی
[1] ۔سنن ابی داود البیوع باب فی فضل الاقالۃ حدیث 3460 وسنن ابن ماجہ التجارات باب الاقالۃ حدیث 2199۔واللفظ لہ۔