کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 342
1۔ استحاضہ شروع ہونے سے قبل اسے ایام حیض کی تعداد اور وقت کا علم ہو۔ ایسی عورت اپنے معمول اور عادت کے مطابق طلاق کی عدت تین حیض پورے کرے۔ 2۔ اگر اسے ایام حیض کی تعداد بھول گئی ہو لیکن وہ حیض کے خون اور استحاضہ کے خون میں فرق و امتیاز کر سکتی ہو تو اس امتیاز کو پیش نظر رکھ کر طلاق کی عدت تین حیض پوری کرے۔ 3۔ اسے ایام حیض بھول گئے ہوں اور وہ حیض اور استحاضہ دونوں کے خون میں فرق و امتیاز نہ کر سکتی ہو تو وہ حیض سے مایوس عورت کی طرح تین مہینے عدت گزارے گی۔ عدت سے متعلق احکام میں سے ایک مسئلہ "خطبہ"یعنی پیغام نکاح کا ہے اگر عورت اپنے شوہر کی وفات کی عدت پوری کر رہی ہو یا اسے طلاق بائن ہو چکی ہوتو ان دونوں قسم کی عورتوں کو دوران عدت میں صاف اور واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام دینا حرام ہے، مثلاً: کوئی کہے:"میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔"البتہ اشارے کنایے سے نکاح کا پیغام دیا جا سکتا ہے، مثلاً:کوئی کہے:"میں نکاح کے لیے تم جیسی عورت چاہتا ہوں۔"اس کے جواز کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ" ’’ تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارے کنایے سے ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو۔‘‘[1] جب کسی شخص نے بیوی کو تین طلاقوں سے کم طلاقیں دیں یا اس نے بیوی کو رجعی طلاق دی تو اس آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ عدت پوری ہونے کی صورت میں دوبارہ نکاح کے لیے کہے یا دوران عدت میں صاف لفظوں میں یا اشارے کنایے سے جیسے چاہے پیغام نکاح دے کیونکہ اس کا اس عورت سے نکاح کرنا مباح ہے اور جب تک عدت میں ہے اس سے رجوع کا حق حاصل ہے۔ جس عورت کا خاوند گم ہو گیا ہو،یعنی اس کا اتاپتا نہ مل رہا ہو کہ زندہ ہے یا فوت ہو گیا ہے تو قاضی یا حاکم کو چاہیے کہ اس کے حالات کے پیش نظر ایک مدت مقرر کرے جس میں عورت خاوند کے لوٹ کر آنے کا انتظار کرےیا پھر اس کی زندگی یا موت کی ایسی خبر ملے جس سے صورت حال واضح ہو جائے۔ عورت اس عدت کے دوران میں گم شدہ کے نکاح میں متصور ہو گی کیونکہ خاوند کا زندہ ہونا اصل حکم ہے۔ جب مقررہ مدت ختم ہو جائے تو قاضی اس کی وفات کا فیصلہ جاری کرے گا۔ اس فیصلے کے بعد عورت شوہر کی وفات والی عدت ،یعنی چار ماہ دس دن گزارے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا یہی فیصلہ ہے۔
[1] ۔البقر:2/235۔