کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 340
عدت میں تینوں حیض مکمل ہونے ضروری ہیں، لہٰذا اگر حالت حیض میں طلاق دی گئی (اگرچہ یہ حرام کام ہے) تو یہ حیض عدت میں شمار نہ ہوگا۔ اگر مطلقہ عورت لونڈی ہے تو اس کی عدت دو حیض ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:’’ لونڈی کی عدت دو حیض ہیں۔‘‘ سیدنا عمر ، علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کا یہی مسلک تھا، نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اس فتوے کا کوئی مخالف معلوم نہیں ہو سکا۔ یہ حکم اللہ تعالیٰ کے عام فرمان کا مخصص ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ " ’’طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔‘‘[1] قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ لونڈی کی عدت ڈیڑھ حیض ہوتی لیکن حیض کا اجزا میں تقسیم ہونا ناممکن ہے، اس لیے عدت دو حیض قرارپائی۔ ایسی عورت جس کا بڑھاپے کی وجہ سے حیض بندہو چکا ہو یا بچی جسے ابھی حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا ،دونوں تین ماہ عدت گزاریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ " "تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں۔ اگر تمھیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور(اسی طرح)ان کی بھی جنھیں ابھی حیض نہیں آیا۔"[2] امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے"اہل علم کا اجماع ہے کہ بڑی عمر کی آزاد عورت اور بچی، جسے ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا ،کی عدت تین ماہ ہے۔"[3] جو عورت بالغ ہو گئی لیکن کسی وجہ سے اسے حیض آنا شروع نہیں ہوا تو اس کی عدت بھی تین ماہ ہے کیونکہ وہ بھی آیت مذکورہ کے عام حکم میں شامل ہے۔ اگر کسی اولاد والی لونڈی کا حیض بند ہو گیا یا عمر میں ابھی چھوٹی ہے تو اس کی عدت طلاق دو ماہ ہے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: "عِدَّةُ أمِّ الولدِ حَيْضَتَانِ، ولو لم تَحِضْ كانَتْ عِدَّتُها شَهْرَيْنِ"
[1] ۔البقرۃ:2/228۔ [2] ۔الطلاق:65/4۔ [3] المغنی والشرح الکبیر لا بن قدامہ:9/90۔