کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 310
طلاق کے موقع پر واضح الفاظ اور اشارے کے الفاظ کے استعمال میں فرق ہے کہ واضح الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ بولنے والے کی نیت شامل نہ بھی ہو۔ اس نے سنجیدگی میں کہا ہو یا مذاق میں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ : النِّكَاحُ ، وَالطَّلَاقُ ، وَالرَّجْعَةُ "
"تین باتیں پکی ہو جاتی ہیں وہ سنجیدگی میں کہی جائیں یا مذاق میں: نکاح ،طلاق اور رجوع کرنا۔"[1]
باقی رہے اشارے کنایے کے الفاظ تو ان کے استعمال سے طلاق واقع نہیں ہوتی الایہ کہ اس میں نیت شامل ہو کیونکہ یہ الفاظ طلاق کے علاوہ دوسرے(ظاہری) معنی کا بھی احتمال رکھتے ہیں، لہٰذا طلاق کی تعیین نیت کے بغیر نہ ہو گی۔ یعنی اگر نیت طلاق میں شامل نہیں ہو گی تو طلاق واقع نہ ہوگی، البتہ تین حالات میں طلاق شمار ہو جاتی ہے ان میں نیت کا اعتبار نہ ہو گا:
1۔ شوہر نے طلاق میں کنایے کا لفظ اس وقت استعمال کیا جب ان کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ہو رہا تھا ۔
2۔ شوہر نے غصے کی حالت میں کنایے کا لفظ استعمال کیا۔
3۔ جب بیوی نے طلاق مانگی اور مرد نے طلاق دیتے وقت کنایے کا استعمال کیا۔ ان حالات میں اشارے کنایے کے الفاظ سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ طلاق دینے والا کہے:"میری نیت طلاق دینے کی نہ تھی۔" کیونکہ قرینہ(صورت حال) اس کی نیت پر دلیل ہے، لہٰذا اس کے دعوے کو سچ نہ سمجھا جائے گا۔واللہ اعلم
شوہر طلاق دینے کے لیے کسی کو اپنا وکیل (نائب )بنالے تو بھی جائز ہے۔ وکیل اجنبی شخص ہو یا خود اس کی بیوی ،یعنی بیوی کی طلاق کا معاملہ اس کے ہاتھ اور اختیار میں دے دے۔ وکیل صریح ،کنایہ اور عدد میں اپنے مؤکل کا نائب ہوگا الایہ کہ مؤکل وکیل کے لیے کوئی تعیین یا حد بندی کر دے۔
طلاق دینے والا خود شوہر ہو یا اس کا وکیل اس کے لیے ضروری ہے کہ زبان سے بولے اور آواز نکالے، محض دل کی نیت سے طلاق واقع نہ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" إِنَّ اللّٰه تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ"
"اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان امور میں درگزر کیا ہے جو دل میں خیالات کی صورت میں ہوں، جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے یا انھیں زبان پر نہ لایا جائے۔"[2]
[1] ۔سنن ابی داؤد ،الطلاق ،باب فی الطلاق علی الھزل، حدیث 2194وجامع الترمذی الطلاق باب ماجاء فی الجد والھزل فی الطلاق، حدیث1184۔
[2] ۔صحیح البخاری ،الطلاق، باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ والسکران، حدیث 5269۔