کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 295
’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بددماغی اور بے پروائی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں اور صلح بہت بہتر چیز ہے۔‘‘[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس (مذکورہ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت آدمی کے نکاح میں ہوتی ہے۔ لیکن اس کا شوہر عورت کی کسی کمزوری کے سبب اس سے زیادہ استمتاع نہیں کر پاتا جس کے سبب اسے طلاق دینا چاہتا ہے۔وہ کہتی ہے: تم مجھے طلاق نہ دو۔اپنے ہاں رکھو ،میرے نفقے اور باری کے حقوق میں تمھیں اپنی مرضی کرنے کا اختیار ہے۔ جب سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا عمررسیدہ ہو گئیں تو انھیں خدشہ محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں طلاق دے کر جدا کردیں گے۔ تو انھوں نے کہا : میں اپنا دن (رات گزارنے کی باری)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں۔ جو شخص دیگر بیویوں کی موجودگی میں کسی کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے پاس مسلسل سات راتیں گزارے، پھر اس کے لیے باری مقرر کر دے۔ان سات دنوں کو باری میں شمار نہ کرے۔ اسی طرح اگر کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کرے تو اس کے پاس مسلسل تین راتیں رہے۔ پھر اس کے لیے باری مقرر کردے اور یہ تین راتیں باری میں شمار نہ کرے ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "مِنَ السُّنَّةِ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ البِكْرَ عَلَى الثَّيِّبِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعاً، وَقَسَمَ، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى البِكْرِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثاً، ثُمَّ قَسَمَ" "سنت یہ ہے کہ جب آدمی (دیگر بیویوں کے ہوتے ہوئے) کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات راتیں گزارے۔ اس کے بعد(تمام) بیویوں کے درمیان باری قائم کرے۔ جب کسی ثیبہ مطلقہ یا بیوہ سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین راتیں گزارے، پھر باری تقسیم کرے۔" اس روایت کے راوی ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت "مرفوع حدیث"کے حکم میں ہے۔[2] اگر ثیبہ عورت پسند کرے کہ اس کا شوہر اس کے ہاں سات روز رہے تو اسے ایسا کر لینا چاہیے لیکن دوسری سوکنوں کو بھی اتنے ہی دن دے، پھر ہر ایک کے ہاں ایک ایک رات گزارنے کی تقسیم کرے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو آپ تین دن تک میرے ہاں رہے اور فرمایا: "إِنَّهُ لَيْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانٌ إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي"
[1] ۔النساء 4/128۔ [2] ۔صحیح البخاری النکاح باب اذا تزوج الثیب علی البکر حدیث 5214۔وصحیح مسلم الرضاع باب قدر ما تستحقہ البکر والثیب من اقامۃ الزوج عندھا عقب الزفاف ،حدیث 1461۔