کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 293
"کیا تم شوہر والی ہو؟" اس نے کہا:جی ہاں! آپ نے پوچھا:" کیا تو اس کی خدمت کرتی ہے؟"وہ کہنے لگی: میں مقدور بھر اس کی خدمت بجالاتی ہوں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم غور کرنا اس(شوہر) کامقام ومرتبہ تیرے مقابلے میں کس قدر بلند ہے کہ وہ تیری جنت ہے یا جہنم ہے۔"[1]
(20)۔اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو خاوند پر فرض ہے کہ ان میں وقت کی تقسیم ،حقوق کی ادائیگی اور رات گزارنے میں مساوات رکھے ورنہ ظلم وزیادتی ہوگی۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" "ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔"[2]
اور ارشاد ہے:
"فَلا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ"
"پھر تم بالکل ایک ہی طرف مائل ہوکر دوسری کو بیچ میں لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو۔"[3]
واضح رہے باری کی ادائیگی رات گزارنے سے سمجھی جائے گی کیونکہ انسان رات کو گھر آتا ہے اور بیوی سے راحت حاصل کرتا ہے،البتہ جس آدمی کو ڈیوٹی یاکاروبار رات کو ہو جیسے چوکیدار وغیرہ تو وہ اپنی بیویوں کے درمیان دن کو باری تقسیم کرے کیونکہ اس کے لیے دن ایسے ہے جیسے دوسروں کے لیے رات۔
(21)۔اگر کوئی بیوی حیض یا نفاس کے ایام میں ہو یا بیمار ہوتوبھی اس کے ہاں رات بسرکرے کیونکہ مقصود محبت وپیاراور سکون ہے جو بیوی کو شوہر کے پاس رات گزارنے سے حاصل ہوتا ہے،خواہ صحبت ومجامعت نہ بھی ہو۔ایام کی تقسیم میں ایک کو دوسری پر ترجیح نہ دے بلکہ ان میں قرعہ اندازی کا طریقہ اپنائے یا ان کی رضا مندی سے ابتدا کرے۔
رضا مندی کے بغیر کسی سے تقسیم ایام کی ابتدا کرنا اسے دوسری بیویوں پر ترجیح اور فضیلت دینے کے مترادف ہے جو ناجائز ہے۔ان میں مساوات رکھنا فرض ہے۔اسی طرح اگر سفرمیں کسی بیوی کو لے جانا چاہتا ہے تو قرعہ اندازی سے یا ان کی باہمی رضا مندی سے ایسا کرے کیونکہ حدیث میں ہے:
"كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِه ِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ "
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے جس کے نام کا قرعہ نکلتا،اسے ساتھ لے جاتے تھے۔"[4]
[1] ۔مسند احمد: 4/341۔
[2] ۔النساء:4/19۔
[3] ۔النساء:4/129۔
[4] ۔صحیح البخاری الھبۃ باب ھبۃ المراۃ لغیر زوجھا۔۔۔،حدیث:2593۔