کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 291
کی موجودگی میں ہوتا ہے۔[1]
(12)۔شوہر پر لازم ہے کہ طاقت وقدرت کے ہوتے ہوئے چار ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ بیوی سے مجامعت ضرور کرے بشرطیکہ بیوی کا میلان اور رغبت ہو۔اس مدت کی تعیین کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایلاء کرنے والے کے حق میں چار ماہ کی مدت مقرر کی ہے،لہذا دوسرے شخص کے حق میں بھی یہی حکم سمجھا جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" خاوند پر اس قدر عمل زوجیت کی ادائیگی واجب ہے جس سے عورت کی خواہش جائز حد تک پوری ہوتی رہے،یعنی خاوند کو نقصان نہ پہنچے یا روزی کمانے کا عمل متاثر نہ ہو۔اس سلسلے میں کسی خاص مدت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔"
(13)۔اگر خاوند نصف سال سے زائد عرصے کے لیے سفر پر رہا،پھر بیوی نے اسے واپس آنے کو کہا تو اسے لازماً واپس پلٹ آنا چاہیے الا یہ کہ وہ سفر فرض حج یا فرض جہاد وقتال کا ہویا وہ واپس آنے پر قادر نہ ہو۔اگر اس نے بلاعذر شرعی واپس آنے سے انکار کردیا اور بیوی نے اس انکار کی بنیاد پر خلع کامطالبہ کیا تو حاکم اس کے شوہر سے مراسلت کرے۔اگر شوہر قصور وار ہوتو حاکم دونوں میں تفریق کردے کیونکہ شوہرایسے حق کا تارک ثابت ہواہے جو بیوی کے لیے نقصان دہ ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ترک وطی سے بیوی کانقصان اس امر کا متقاضی ہے کہ نکاح کو ہرحال میں فسخ قراردیا جائے۔اس میں خاوند کا قصد وارادہ شامل ہو یا نہ ہو خاوند کو مجامعت پر قدرت ہویا نہ ہو جیسا کہ بیوی کے نان ونفقہ کے بارے میں حکم ہے۔"[2]
(14)۔زوجین پر حرام ہے کہ کسی کے ہاں ان اقوال وافعال کا تذکرہ کریں جو مجامعت کے دوران ہوں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَتُفْضِي إِلَيْهِ ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا "
"روز قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بُرا مرتبہ اس شخص کاہوگا جو اپنی بیوی سے مجامعت کرتا ہے اور بیوی اس سے لطف واندوز ہوتی ہے،پھر مرد اپنی بیوی کے راز(دوسروں کے آگے) کھولتا ہے۔"[3]
اس روایت سے ثابت ہواکہ خاوند اور بیوی پرحرام ہے کہ وہ کسی اور کے سامنے دوران مجامعت ہونے والے
[1] ۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ باب عشرۃ النساء:5/481۔
[2] ۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ باب عشرۃ النساء 5/481،482۔
[3] ۔صحیح مسلم النکاح باب تحریم افشاء سرالمراۃ حدیث:1437۔