کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 290
حکم دیا جاتا ہے وہی بجا لاتے ہیں۔"[1]
نیز فرمان الٰہی ہے:
"وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا"
"اپنے گھرانے کے لوگوں کو نمازکا حکم دیجیے اور(خود بھی) اس پر قائم رہیے۔"[2]
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
"وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿٥٤﴾ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ "
"اس کتاب میں اسماعیل کا واقعہ بھی بیان کریں ،بے شک وه بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی، وه اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰة کاحکم دیتا تھا۔ "[3]
(10)۔ بیوی کے بارے میں خاوند پر مسئولیت عائد ہوتی ہے ،وہ اس پر نگران(حاکم) ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔اسی طرح وہ دینی اُمور کے بارے میں بھی ذمے دار اور نگران ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ عورت نے اس کی اولاد کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے اور وہ خاوند کے بعد گھر کی ذمے دار ہوتی ہے،اس لیے اس کا تربیت یافتہ ہونانہایت ضروری ہے ورنہ اس کے دین واخلاق کی خرابی سے مرد کی اولاد اور اس کے اہل بیت میں فساد خرابی لازم آئے گی۔
تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں،ان کے روزمرہ کاموں پر نظر رکھیں،نیز ان کے حقوق وتصرفات کا خیال رکھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا" " عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی نصیحت وتلقین قبول کرو ۔‘‘ [4]
(11)۔شوہر کو چاہیے کہ بیوی اگرآزاد ہے تو اس کے پاس چار راتوں میں سے ایک رات ضرور ر ہےبشرطیکہ بیوی کی طلب ہو کیونکہ وہ اس کے ساتھ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ تین عورتیں اور رکھ سکتا ہے،(چنانچہ ہر بیوی کی باری چوتھے دن بنتی ہے۔) امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاں سیدناکعب بن سوار رضی اللہ عنہ نے یہی فیصلہ دیا تھا۔بعض فقہاء کی بھی یہی رائے ہے،البتہ شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ فیصلہ محل نظر ہے وہ فرماتے ہیں کہ چار عورتوں سے نکاح جائز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ایک ہی بیوی ہوتو بھی اس کا حق اتنا ہی ہوگا جتنا چار عورتوں
[1] ۔التحریم:66/6۔
[2] ۔طہٰ 20/132۔
[3] ۔مریم:19/54،55۔
[4] ۔صحيح مسلم الرضاع باب الوصیۃ بالنساء قبل حدیث (61) ۔1467۔