کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 29
نیز ارشاد نبوی ہے:
" وَلاَ يَحِلُّ لاِمْرِئٍ مُسْلِمٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلاَّ بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ"
"خبردار کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے مگر جو اس کی خوش دلی کے ساتھ ہو۔"[1]
یہ بات ظاہر ہے کہ نقصان پر نقصان زدہ کا دل خوش نہیں ہوتا،البتہ اگر نقصان معمولی ہو،یعنی عام عادت کے موافق ہوتو اسے اختیار نہ ہوگا۔
نقصان میں اختیار حاصل ہونے کی تین صورتیں ہیں:
1۔ قافلوں سے ملاقات کرنا،یعنی جو قافلے اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے شہر(منڈی) میں آتے ہیں ان کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی کسی نے ملاقات کرکے ان سے سامان خرید لیا،پھر بعد میں واضح ہوا کہ انھیں اندھیرے میں رکھ کر بہت زیادہ خسارہ پہنچایا گیا ہے تو انھیں سودا فسخ کرکے اپنا سامان واپس لینے کا اختیار ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لاَ تَلَقَّوْا الْجَلَبَ، فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ، فَإِذَا أَتَى سَيِّدُهُ السُّوقَ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ"
"تم قافلوں کو (منڈی میں آنے سے پہلے ہی) نہ ملو جس نے انھیں مل کر کوئی سامان خریدلیا،پھر اس کا مالک منڈی میں آگیا تو اسے(زیادہ نقصان کی صورت میں) اختیارحاصل ہے(چاہے بیع قائم رکھے اور چاہے تو اسے فسخ قراردے۔)"[2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جو لوگ قافلوں کو منڈی میں آنے سے پہلے ہی ملتے ہیں اور ان سے بیع کرتے ہیں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اختیاردیا ہے کیونکہ اس میں ایک قسم کا دھوکا اور فراڈ ہے۔"[3]
ایسی ہی وضاحت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی ہے۔
2۔ وہ خسارہ جو اس شخص کی بدولت ہوا جو سامان خریدنا نہیں چاہتا تھا بلکہ محض سامان کی قیمت بڑھانے کے لیے "بولی" دینے والوں میں شریک ہوا۔یہ کام حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "وَلا تَنَاجَشُوا"محض
[1] ۔سنن دارقطنی :3/25،حدیث:2861۔
[2] ۔صحیح مسلم البیوع باب تحریم تلقی الجلب حدیث 1519۔
[3] ۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 28/102 بتصرف۔