کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 282
اس کے مشابہ ہوں گی،ان کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اگر شوہر نے بیوی کو قبل ازدخول طلاق کے ذریعے سے الگ کردیا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق بیوی کو مال ومتاع سے فائدہ پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ " "اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناه نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائده دو۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائده دے۔ بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔"[1] آیت میں صیغہ امر وجوب کے معنی دیتا ہے اور واجب کی ادائیگی احسان ہے۔ اگر قبل از وطی کسی ایک کے مرنے کے سبب مفارقت ہوگئی توعورت کے لیے مہرمثل ہوگااور ہر ایک دوسرے کا وارث بھی ہوگا کیونکہ انعقاد نکاح کےوقت مہر کے عدم ذکر سے صحت نکاح میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت اس کی مؤید ہے۔ اگر دخول یا خلوت حاصل ہوگئی تو عورت کے لیے مہر مثل کامل ہے جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے خلفائے راشدین کا فیصلہ ان الفاظ میں بیان کیاہے: "مَنْ أَغْلَقَ بَاباً وَأَرْخَى سِتْرَاً فَقَدْ وَجَبَ لَهَا الصَّدَاقُ " "جس نے دروازہ بند کرلیا اور پردہ لٹکالیا اس پر مہر واجب ہوگیا۔"[2] اگر قبل از وطی عورت کی جانب سے تفریق پیدا ہوئی تو اسے مہر میں سے کچھ نہ ملے گا،مثلاً:وہ مرتد ہوگئی یا اس نے خاوند میں کوئی عیب نکال کرنکاح فسخ کردیا وغیرہ۔ 7۔ عورت کو حق حاصل ہے کہ مہر معجل(جسے خلوت سے پہلے ادا کرنا طے پایا ہو) کی ادائیگی سے پہلے خاوند کو قریب نہ آنے دے کیونکہ ایک بار یہ موقع دینے کے بعد وصولی مشکل ہوگی۔اگر سارامہر مؤجل(جسے تاخیر سے ادا کرنا طے پایا ہو)ہے تو عورت کو خلوت سے انکار کاحق حاصل نہیں کیونکہ وہ مہر کی تاخیر پر رضا مندی کا اظہار کرچکی ہے۔اسی طرح اس نے اگر ایک بار خلوت کاموقع دے دیا تو اس کے بعد اس نےچاہا کہ مہر وصول ہونے تک خاوند سے
[1] ۔البقرۃ:2/236۔ [2] ۔سنن دارقطنی :3/121حدیث3778۔ 3779والمصنف لابن ابی شیبۃ:3/512والمغنی:8/63۔