کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 281
ہے کہ وہ آدھا مہر دینے کے بجائے پورا مہر ادا کردے۔اس میں مرد اور عورت دونوں کو اس بات کی ترغیب ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تنگ ظرفی کامعاملہ نہ کریں اور باہم قائم ہونے والے تعلق کا لحاظ رکھیں۔
4۔ جو کچھ بھی نکاح کی وجہ سے وصول کیا جائے وہ حق مہر میں شامل ہے،مثلاً:اس کے باپ یا بھائی کے لیے لباس کا جوڑا وغیرہ۔
5۔ اگر کسی عورت کو بطورمہر ایسا مال دیا گیا جو کسی سے چھینا گیا تھا یا حرام شے تھی تو نکاح صحیح ہوگا،البتہ مرد پر لازم ہے کہ حرام مہر کے عوض عورت کو مہر مثل ادا کرے۔
6۔ اگرانعقاد نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہوتو نکاح صحیح ہوگا۔اس کو تفویض(بلا مہرشادی) کہتے ہیں اور اس میں مہر مثل مقرر کیا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً "
"اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔"[1]
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ"ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کا مہر مقرر نہ کیا اوروطی کرنے سے قبل ہی فوت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:اس عورت کو مہر مثل ملے گا،یعنی وہ مہر جو اس عورت کے قبیلے کی عورتوں میں معروف ہے۔اس میں کمی بیشی نہ ہوگی،اس عورت پر عدت بھی ہوگی اور اسے خاوند کی میراث بھی ملے گی،چنانچہ معقل بن سنان رضی اللہ عنہ (صحابیٔ رسول) نے کھڑے ہوکر فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کی عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔"[2]
تفویض کی ایک صورت یہ ہے کہ مہر کی مقدار کو مفوض کیاجائے۔اس کی شکل یہ ہے کہ ہونے والے خاوند اور بیوی آپس میں طے کرلیں کہ تو جتنا چاہے مہر مقرر کرلینا یاتیسرا(اجنبی) آدمی جتنا کہے وہ مقرر ہوجائے۔اس طریقے سے کیا ہوا نکاح صحیح ہوگا اور اس میں مہر مثل مقرر کیا جائےگا اور مہر مثل سے متعلق فیصلہ قاضی کرے گا اور یہ اس عورت کی رشتے دار خواتین کے مہر کو دیکھ کرمقرر کیا جائے گا،جیسے اس کی ماں،خالہ یا پھوپھی وغیرہ ہے۔فیصلے میں قاضی ان عورتوں کااعتبار کرے گا جو اس عورت کے مال،حسن وجمال ،عقل وفہم،ہنر وادب ،عمر اور باکرہ یابیوہ وغیرہ ہونے میں ہم پلہ ہوں گی۔اگر اس عورت کی قریبی رشتے دار خواتین نہ ہوں تو اس کے شہر کی دوسری عورتیں جو
[1] ۔البقرۃ:2/236۔
[2] ۔سنن ابی داود النکاح باب فیمن تزوج ولم یسم لھا صداقا حتی مات،حدیث 2114،وجامع الترمذی النکاح باب ماجاء فی الرجل یتزوج المراۃ فیموت عنھا قبل ان یفرض لھا،حدیث:1145واللفظ لہ۔