کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 280
1۔ مہر کی مالک عورت ہے نہ کہ اس کا ولی ،الایہ کہ عورت خود اپنی رضا مندی سے کسی کو مہر کا کچھ (یا سارا) حصہ دے دے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً " "اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دو۔"[1] البتہ عورت کا باپ خصوصی طور پر مہر کی رقم لےسکتا ہے اگرچہ عورت کی اجازت نہ بھی ہوبشرطیکہ اس میں عورت کے لیے کوئی مشکل وتکلیف نہ ہو اور عورت کو اس کی ضرورت نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " أَنْتَ وَمَالُكَ لأَبِيكَ " " تم اور تمہارا مال(سب کچھ) تمہارے باپ کا ہے۔"[2] 2۔ مہر کی رقم عقد نکاح کے وقت ہی سے عورت کی ملکیت میں آنا شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ بیع میں ہوتاہے،البتہ وطی یا خلوت یاکسی ایک کی موت کی صورت میں مکمل طور پر اس کا تقرر وثبوت ہوجاتا ہے۔ 3۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو دخول وخلوت سے پہلے ہی اطلاق دے دی اور مہر کی رقم مقرر ہوچکی تھی تو خاوند آدھا مہر ادا کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ " "اور اگر تم عو رتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انھیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا ہوتو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو۔"[3] آیت کے سیاق کا تقاضا ہے کہ صرف طلاق دینے سے نصف مہر خاوند کا ہو اور نصف عورت کا اور جس نے بھی اپنا حصہ چھوڑدیا،جبکہ جائز التصرف ہوتو اس کا یہ معاف کرنا اور چھوڑنا صحیح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ " "یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ(معاملہ) ہے۔"[4] اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ر غبت دلاتے ہوئے فرمایا: "وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ " "تمہارا معاف کردینا تقوے کے بہت نزدیک ہے،اور تم آپس میں بھلائی اور احسان کرنا مت بھولو۔"[5] واضح رہے عورت کی جانب سے معافی یہ ہے کہ وہ آدھا مہر بھی نہ لے اور مرد کی طرف سے معافی کی صورت یہ
[1] ۔النساء 4/4۔ [2] ۔سنن ابن ماجہ التجارات باب ما للرجل من مال ولدہ؟حدیث:2291۔ [3] ۔البقرۃ:2/237۔ [4] ۔البقرۃ:2/237۔ [5] ۔البقرۃ:2/237۔