کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 278
اس نے زیادہ مہر مقرر کرکے ادائیگی مؤخر کردی تو یہ بھی مکروہ ہے کیونکہ اس میں بھی خود کومشکل میں ڈالنا ہے۔"[1]
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مہر کی رقم کا زیادہ ہونا مکروہ نہیں الا یہ کہ اس میں فخرومباہات پایا جائے یا اسراف کا پہلو ہو یا اس کا بوجھ مرد کے لیے قابل برداشت نہ ہو اور وہ اس بوجھ کو اتارنے کے لیے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرتا رہے اور وہ قرض کے بوجھ تلے دبا رہے۔یہ بہت قیمتی اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور انھیں نظر انداز کرنے سے نقصانات ہوتے ہیں۔
(2)۔گزشتہ کلام سے واضح ہوا کہ جو لوگ شادی کرنے والے شخص کی غربت وتنگ دستی کالحاظ کیے بغیر خود ہی مہر کی کثیررقم مقرر کردیتے ہیں وہ لوگ اس شخص کے لیے مشکلیں اور مصیبتیں کھڑی کردیتے ہیں۔یہ رواج نکاح کے راستے میں رکاوٹ بن چکا ہے۔مہر کے علاوہ بیوی اور اس کےرشتے داروں کی طرف سے مزید مختلف بوجھ ڈالے جاتے ہیں،مثلاً:قیمتی کپڑوں اور بھاری زیورات کامہیا کرنا ،اچھے اور قیمتی کھانوں اور گوشت کا ضائع ہونا وغیرہ۔یہ سب کچھ بھاری بوجھ اور گلے کے طوق ہیں،اغیار کی بُری اور اندھی تقلید ہے جن کامقابلہ کرنا اور ان سے زوجین کے راستوں کو صاف کرنا از حد ضروری ہے تاکہ یہ دینی تعریف آسان سے آسان طریقے سے انجام پاسکے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
" أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ مَئُونَةً "
" وہ عورتیں عظیم برکت کا باعث ہیں جن کے نکاح اور نان ونفقہ کاخرچ کم ہو۔"[2]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" أَلاَ! لاَ تَغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ أَوْلاَكُمْ بِهِ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ وَلاَ أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَىْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ وَحَتَّى يَقُولَ كُلِّفْتُ لَكُمْ عَلَقَ الْقِرْبَةِ "
"خبردار! عورتوں کے مہر میں غلو نہ کرو،اگر یہ کام دنیا میں عزت اور اللہ عزوجل کے ہاں تقوے کا باعث ہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نسبت اس کے زیادہ لائق تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی بیویوں یا اپنی بیٹیوں
[1] ۔الفتاوی الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ، باب الصداق:5/468۔
[2] ۔مسند احمد :6/145 والسنن الکبریٰ للبیہقی 7/235 والمستدرک للحاکم 2/195 حدیث 2732۔