کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 277
مہرکابیان مہر خاوند کی طرف سے بیوی کو معاوضہ دینے کا نام ہے جو نکاح کے وقت یا اس کے بعد مقرر کیاجاتا ہے۔مہر کا حکم"وجوب" کا ہے۔اس کی دلیل کتاب اللہ،سنت رسول اوراجماع ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا " "اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، پھر اگر وه اپنے دل کی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے رچتا بچتا کھاؤ پیو۔ "[1] خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے نکاح کیے،ان میں سے کوئی نکاح بھی مہر سے خالی نہ تھا،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کوفرمایا: " الْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ " "مہر کے لیے کچھ تلاش کرواگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔"[2] علاوہ ازیں اہل علم نے مہر کی مشروعیت پراتفاق کیا ہے۔ (1)۔شریعت میں مہر کی مقدار کی کوئی حد مقرر نہیں۔نہ کم از کم کی اور نہ زیادہ سے زیادہ کی۔جو شےقیمت یااجرت کے طور پر دینے کے قابل ہو،اسے مہر میں دینا درست ہے اگرچہ وہ کم ہو یا زیادہ ،البتہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور پیروی کرنا زیادہ مناسب ہے۔اور وہ یہ کہ مہر کی رقم چار سو درہم کے قریب قریب ہو۔[3]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا مہر بھی اسی قدر تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اگر کوئی شخص مہر کی رقم زیادہ مقدار میں دینے کی طاقت رکھتا ہو تو مہر زیادہ دینامکروہ نہیں الا یہ کہ کوئی شخص فخرومباہات کے سبب ایسا کرے۔اور اگر وہ عاجز اور تنگ دست ہے تو مہر کی رقم زیادہ مقرر کرنا نہ صرف مکروہ ہے بلکہ حرام ہے۔اسی طرح اگر مرد مجبور ہوجائے کہ مہر ادا کرنے کے لیے حرام صورتیں اختیار کرے یالوگوں کےآگے دست سوال پھیلائے تو اس صورت میں بھی زیادہ حق مہر مقررکرنا حرام ہے۔اور اگر
[1] ۔النساء :4/4۔ [2] ۔صحیح البخاری النکاح باب عرض المراۃ نفسھا علی الرجل الصالح حدیث :5121۔ [3] ۔چار سو درہم کا وزن ایک سو پانچ تولے چاندی ہے۔مارکیٹ کے ریٹ کے حساب سے اس کی قیمت کا حساب لگا لیا جائے۔(صارم)