کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 275
رہے کہ بہت سے لوگوں نے عہد نبوی میں اسلام قبول کرلیاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو سابقہ نکاح پر قائم رکھا اور ان نکاحوں کی کیفیت نہ پوچھی۔
(10)۔اگر کفار عقد نکاح سے قبل ہمارے پاس آجائیں گے تو ہم دین اسلام کے مطابق ان کے نکاح کردیں گے،یعنی ایجاب وقبول کرنا،ولی کا ہونا اور دو مسلمان گواہوں کی موجودگی وغیرہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ "
"اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔"[1]
(11)۔اگر وہ انعقاد نکاح کے بعد ہمارے ہاں آئیں گے تو ہم ان سےکیفیت نکاح کے بارے میں تعرض نہ کریں گے۔
(12)۔اسی طرح اگرخاوند اور بیوی دونوں حالت کفر کے نکاح کے بعد مسلمان ہوجائیں تو ہم ان کے نکاح کی کیفیت وشرائط کے بارے میں تعرض نہ کریں گے،البتہ ہم ان کے ہمارے ہاں مقدمہ لانے یا اسلام قبول کرنے کے وقت کا لحاظ ضرور کریں گے۔
اگر مذکورہ وقت میں بغیر کسی شرعی مانع کے اس کی بننے والی بیوی سے نکاح جائز تھا تو ان کا نکاح قائم رہے گا کیونکہ ابتدائے نکاح میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں،لہذا نکاح کوہمیشہ قائم رکھنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔اور اگر ہمارے ہاں مقدمہ لانے یا قبول اسلام کے وقت اس کی بننے والی بیوی سے نکاح حرام تھا تو ان میں تفریق کردی جائےگی کیونکہ جب عقد نکاح کی ابتداء ہی فاسد ہے تو نکاح کوقائم رکھنا بھی فاسد اور حرام ہے۔اگر حالت کفر میں عورت کے لیے مہر کی مقرر شے جائز اور درست ہے تو بیوی اسے وصول کرے گی کیونکہ اس کی وصولی میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے اوراگر حرام شے ہے،مثلاً:شراب یاخنزیر تو اگر عورت نے اسے وصول کرلیا تو اس کانکاح قائم رہے گا۔اور بیوی نے جو کچھ وصول کرلیا اس کے سوا اسے اور کچھ نہ ملے گا کیونکہ اس نےاسے مشرکانہ حالت میں لیاتھا،لہذا خاوند بری الذمہ ہوگیا۔علاوہ ازیں اگر مہر کوازسر نو چھیڑا جائے تو اس میں خاوند کے لیے مشکل ہوگی جو اسلام سے نفرت کاباعث ہوسکتی ہے،لہذا دیگر کفریہ اعمال کی طرح اسے بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔
اگرعورت نے مہر فاسد قبضے میں نہیں لیا تو اس کا مہر"مہر مثل" ہوگا۔اگراس نے مہر فاسد کا کچھ حصہ وصول کرلیا اورکچھ حصہ ابھی وصول کرنا ہے تو جس قدر حصہ وصول کرنا ہو اس کے برابر وہ مہر مثل کی قسط وصول کرلے گی۔اور اگر اس کے مہر کا سرے سے نام نہیں لیاگیا تو اسے مہر مثل ملے گا کیونکہ یہ نکاح مہر کانام لیے(مہر مقرر کیے) بغیر ہوا ہے۔
[1] ۔المائدۃ:5/42۔