کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 27
بیع میں خیار کے احکام
دین اسلام خیرخواہی کا دین ہے جو لوگوں کی مصلحتوں اور فوائد کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی تکالیف اور مشقتوں کا ا زالہ کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے لین دین کرنے والے کو بیع میں ایک حد تک اختیار دیا ہے تاکہ وہ ا پنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکے اور خریدی ہوئی شے کی مصلحت پر مزید غوروفکر کرلے۔اگر اسے فائدہ حاصل ہورہا ہوتو بیع کو قائم رکھے اور اگر نقصان کا اندیشہ ہوتو اسے فسخ کردے۔
بیع میں اختیار کا مطلب یہ ہے کہ دو صورتوں میں سے بہتر صورت کا انتخاب کرنا،یعنی بیع کو فسخ قراردینا یا اسے قائم رکھنا۔بیع میں اختیار کی آٹھ اقسام ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ مجلس میں اختیار:جس مقام پر بیع ہوئی ہے،بائع اور مشتری جب تک اس جگہ میں موجود ہیں ان میں سے ہر ایک کو اختیار حاصل ہے کہ بیع کو قائم رکھے یا اسے ختم کردے۔اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلاَنِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا وَكَانَا جَمِيعًا"
"جب دو شخص بیع کریں تو ہرایک کو اس وقت تک بیع میں اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں،یعنی وہ اکھٹے ہوں۔"[1]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"شارع نے بیع کے معاملے میں مجلس میں جو اختیاردیاہے اس میں بائع اور مشتری دونوں کے حق میں حکمت اور مصلحت پنہاں ہے۔اور وہ یہ کہ بیع میں بائع اور مشتری دونوں کی مکمل رضا مندی ہوجائے جو اللہ تعالیٰ نے ا پنے فرمان:
"عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ "’’ تمہاری آپس کی رضا مندی سے(خریدوفروخت ہو۔)‘‘[2]میں بیع کے لیے ایک شرط کے طور پر بیان کی ہے۔عام طور پر بیع غوروفکر کے بغیر ہی جلد بازی میں ہوجاتی ہے،لہذا شریعت کاملہ کے محاسن کا تقاضا یہ ہے کہ بیع میں بائع اور مشتری کے لیے ایک حد مقرر کردی جائے جس میں دونوں اپنے فیصلے پر خوب غوروفکر کرلیں،اگر کوئی کمی ہوتو اسے پورا کرلیں۔اس حدیث کے مطابق دونوں کو اس وقت تک اختیار حاصل ہوگیا،جب تک وہ بیع کرنے کی جگہ میں موجود رہتے ہیں اور جدا نہیں ہوتے۔
اگر دونوں نے یا کسی ایک نے بیع کرتے وقت اختیار کی شرط ختم کردی تو دونوں کا یا دونوں میں سے اس کا جس
[1] ۔صحیح البخاری البیوع باب اذا خیر احدھما صاحبہ بعد البیع فقد وجب البیع حدیث 2112۔
[2] ۔النساء:29/4۔