کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 260
کاپانچ اوصاف میں ہم پلہ ہونا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں: 1۔ دین:فاجروفاسق مرد پاک دامن،صالح عورت کا کفو نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسے شخص کی گواہی اور روایت مردود ہوتی ہے جوشرف انسانیت میں ایک نقص ہے۔ 2۔ نسب:عجمی اور عربی میں مساوات نہیں،لہذا عجمی شخص عربی عورت کاکفونہیں۔[1] 3۔ آزادی:کامل یا جزوی غلام آزاد عورت کے مساوی نہیں ہوتا کیونکہ ایسا مرد غلامی کی وجہ سے ناقص ہے۔ 4۔ صنعت:معمولی اور کم درجے کا پیشہ اختیار کرنے والا،مثلاً:سینگی لگانے والا اور جولاہا اس عورت کے برابر نہیں ہوسکتا جو کسی عزت والے پیشے،یعنی تاجر کی بیٹی ہے۔[2] 5۔ مال میں فراخی:نکاح میں مہر اور نان ونفقہ کی ادائیگی شوہر کے ذمے ہوتی ہے،لہذا تنگدست اور فقیر شوہر مالدار عورت کے برابر نہیں کیونکہ خاوند کی تنگ دستی اور اس کی طرف سے اخراجات کی عدم ادائیگی عورت کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث ہے۔ (1)۔اگر خاوند اور بیوی میں درج بالا پانچ چیزوں میں اختلاف ہوتوان میں برابری اور مساوات نہ رہی۔ واضح رہے اگر ان پانچ امور میں سے کوئی ایک امر زوجین میں پایا جائے تو صحت نکاح پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ زوجین میں برابری صحت نکاح کے لیے شرط نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو مشورہ دیا تھا: "انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَكَرِهْتُهُ " "تم اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے شادی کرلو۔انھوں نے(اولاً یہ مشورہ) پسند نہ کیا۔" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: "انْكِحِي أُسَامَةَ فَنَكَحْتُهُ ""اسامہ سے شادی کرلوتو انھوں نے ان سے شادی کرلی۔"[3] واضح رہے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام،یعنی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے جبکہ سیدہ فاطمہ
[1] ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ"کسی عربی کو عجمی پرکوئی فضیلت نہیں۔" مسند احمد :5/411،اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:""إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ""لہذا مؤلف کا دعویٰ درست نہیں۔(صارم) [2] ۔کفاءت کااعتبار دو چیزوں میں ہے:دین اور اخلاق ،باقی چیزیں بلادلیل ہیں۔اسلام میں اونچ نیچ کے لیے اس قسم کی بنیاد کا کوئی تصورنہیں اور نہ کوئی دلیل ہے۔(صارم) [3] ۔صحیح البخاری الطلاق باب قصۃ فاطمۃ بنت قیس۔۔۔حدیث 5321،وصحیح مسلم الطلاق باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا حدیث 1480 واللفظ لہ۔