کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 26
"نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ - صلى اللّٰهُ عليه وسلم - عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ"
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا۔‘‘[1]
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کی وہی تشریح کی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے۔
2۔ وہ شرط جو بنفسہ فاسد ہے لیکن بیع کو فاسد قرار نہیں دیتی، مثلاً :مشتری بائع سے سامان خریدتے وقت یہ شرط عائد کردے کہ اگر اسے اس مال میں خسارہ ہوا تو اسے واپس کردے گایا بائع مشتری پر یہ شرط لگا دے کہ وہ اسے کسی دوسرے شخص کے ہاں فروخت نہیں کرسکتا ۔ یہ شرط فاسد ہے کیونکہ یہ مقتضائے عقدکے منافی ہے۔ بیع کا مقتضی یہ ہے کہ مشتری اپنے خریدے ہوئے مال میں تصرف کا مطلقاً اختیار رکھتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللّٰهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ "
"جس نے ایسی شرط لگائی جو اللہ کی کتاب میں نہیں تو وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہی لگالے۔"[2]
اس شرط کے بطلان کے باوجود بیع باطل و فاسد نہیں ہوتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک کی یہ شرط" کہ اگر وہ آزاد ہو گئی تو اس کی ولاء اسے ملے گی۔" باطل قراردی، البتہ عقد و بیع کو باطل قرارنہیں دیا۔ اور فرمایا:
"إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ" "ولاء اسے ملے گی جو آزاد کرے گا۔"[3]
مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ خریدو فروخت کے مسائل کا علم حاصل کرے اور صحیح اور فاسد شرائط سے واقف ہو حتی کہ بیع کے معاملے میں مکمل بصیرت رکھے تاکہ مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا اور تنازعہ پیدانہ ہو۔ بیع کے معاملے میں عا م طور پر جو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں ان کا سبب بائع اور مشتری دونوں کا یا کسی ایک کا بیع کے مسائل سے ناواقف ہونا اور دوسرے کو فاسد شرائط کا پابند کرنا ہے۔
[1] ۔جامع الترمذی ، البیوع ، باب ماکاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ ،حدیث 1231،ومسند احمد 2/432و475۔
[2] ۔صحیح البخاری ،البیوع ، باب الشراء والبیع مع النساء حدیث:2155،وصحیح مسلم،العتق ،باب بیان ان الولاء لمن اعتق ،حدیث :1504۔
[3] ۔صحیح البخاری، البیوع، باب الشراء والبیع مع النساء حدیث:2155، وصحیح مسلم، العتق، باب بیان ان الولاء لمن اعتق، حدیث :1504۔