کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 251
کا مقصد خود کو حرام کے ارتکاب سے بچانا ہے۔
اسی حالت کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگر کسی انسان کو نکاح کی ایسی احتیاج ہو کہ اس کے ترک سے بدکاری میں ملوث ہو جانے کا خطرہ ہو تو وہ نکاح فرض حج سے مقدم ہے۔"[1]
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ"ایسے شخص کے لیے نکاح کرنانفلی حج ،نفلی نماز اور نفلی روزے سے بہتر ہے۔" اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ایسی حالت میں نکاح کرنا فرض ہے، وہ اخراجات کی ادائیگی پر قادر ہو یا نہ ہو۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہاء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مال دار ہونا ضروری نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نکاح کے سبب غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
"إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ"
"اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔"[2]
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ اس حال میں صبح ہوتی کہ کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا اور کبھی اس حال میں شام ہوتی کہ پاس کچھ نہ ہوتا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی شادی کی جس کے پاس لوہے کی انگوٹھی بھی نہ تھی۔
قوت و شہوت موجود ہو اور ارتکاب زنا کا خطرہ نہ ہو تو نکاح کرنا مستحب ہے کیونکہ نکاح مردوں اور عورتوں کے لیے بہت سی مصلحتوں اور فوائد پر مشتمل ہے۔
جب جماع کی خواہش نہ ہو ،مثلاً: کسی شخص کا عمر رسیدہ ہونا یا اس کی قوت باہ کا کمزور ہونا، تو اس کے لیے نکاح کرنا مباح ہے۔ البتہ کبھی ایسی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے عورت کے لیے نکاح کا مقصد ،یعنی تحفظ عصمت فوت ہو جاتا ہے اور اس کے فطری جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
مسلمان شخص کے لیے اس وقت نکاح کرنا حرام ہے جب وہ کفار کے ایسے ملک میں رہتا ہو جو" دارلحراب " ہو کیونکہ اس صورت میں اولاد کو اخلاقی خطرات درپیش ہوتے ہیں اور کافروں کے تسلط کا خطرہ ہوتا ہے، نیز اس ماحول میں بیوی کے غیر مامون ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایسی عورت سے نکاح کرنا مسنون ہے جو دین والی ،باعفت اور نیک خاندان کی ہو کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] ۔الفتاوی الکبری الاختیارات العلمیہ:5/451۔
[2] ۔النور:24/32۔