کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 242
"كُلُّ قَسْمٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلَى مَا قُسِمَ لَهُ وَكُلُّ قَسْمٍ أَدْرَكَهُ الإِسْلاَمُ فَهُوَ عَلَى قَسْمِ الإِسْلاَمِ " "جو تقسیم جاہلیت میں ہوگئی اسے قائم رکھا جائے گا اور جو تقسیم زمانۂ اسلام میں ہوگی وہ اسلام کے قوانین کے مطابق ہو گی۔"[1] "مسلمان کافر کاوارث ہوگا لیکن کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو گا۔کیونکہ حدیث میں ہے: " الْإِسْلَامُ يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ " "اسلام بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔"[2] لہٰذا اگر مسلمان کو کافر کا ترکہ ملے تو فائدہ ہے اور حدیث کا تقاضا پورا ہوتا ہے جبکہ حصہ نہ ملنے میں نقصان ہے۔ ان مذکورہ اقوال میں سے پہلا قول راجح ہے کیونکہ دوسرے اقوال کی نسبت اس کی دلیل صحیح اور صریح ہے۔[3] 2۔کافر شخص کو کافر کا وارث بنانا:اس مسئلے کی دو حالتیں ہیں: مورث اور وارث ایک ہی مذہب پر ہوں ،مثلاً: دونوں یہودی ہوں یا دونوں عیسائی ہوں۔اس حالت میں وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ مورث اور وارث دونوں کا مختلف مذہب ہو۔ مثلاً: ایک یہودی ہو اور دوسرا عیسائی یا اس کے برعکس یا ایک مجوسی ہو، دوسرا بت پرست یا اس کے برعکس صورت ہو۔ اس حالت میں حق میراث کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ کفر کو ایک ہی مذہب قرار دیا جائے یا مختلف مذاہب کو الگ الگ حیثیت دی جائے ۔ اس بارے میں اقوال ائمہ درج ذیل ہیں: 1۔ کفر ایک ہی ملت ہے، وہ یہودیت ہو یا نصرانیت یا مجوسیت یا بت پرستی ،لہٰذا وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے بشرطیکہ وہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوں۔[4] کیونکہ اس کے بارے میں وارد نصوص شرعیہ میں عموم ہے جن کی تخصیص بلا مخصص جائز نہیں الایہ کہ جسے شارع نے خود ہی مستثنیٰ کر دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] ۔سنن ابی داود الفرائض باب فیمن اسلم علی میراث ،حدیث:2014۔اس مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: "تفہیم المواریث"(صارم) [2] ۔(ضعیف) سنن ابی داؤد الفرائض باب ھل یرث المسلم الکافر ؟حدیث 2912۔ [3] ۔قول اول کی طرح قول ثانی بھی قابل عمل ہے کیونکہ اس کا تعلق خاص ترکہ ،یعنی "ولاء"سے ہے ،چنانچہ قول ثانی میں پیش کردہ روایت سے جس طرح قول اول کی تائید ہوتی ہے اسی طرح سے قول ثانی کی صحت بھی ثابت ہوتی ہے۔ الغرض روایت لایرث المسلم ۔۔دونوں اقوال کی مؤید ہے۔(صارم) [4] ۔یہ شرط محل نظر ہے۔