کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 24
" يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَسْتَحِلُّونَ الرِّبَا بِاسم الْبَيْعِ "
"لوگوں پر ایک ایساوقت آئے گا جب وہ سود کو بیع کا نام دے کر حلال قراردیں گے۔"[1]
بیع میں شرائط کا بیان
بیع میں شرائط کا وقوع اکثر ہوتا ہے۔بائع اور مشتری دونوں کو یا کسی ایک کو بعض دفعہ بیع میں کوئی شرط عائد کرنی پڑتی ہے،لہذا اس ضرورت کے پیش نظر ہم یہاں چند شرائط کاتذکرہ کریں گے۔اور یہ بھی بیان کریں گے کہ کون سی شرط صحیح اورجائز ہے اور کون سی فاسد اور باطل ہے۔
فقہاء رحمۃ اللہ علیہم بیع میں شرط کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ بائع یا مشتری میں سے کوئی ایک دوسرے پر دوران بیع ایسی بات لازم کردے جس میں اس کا ذاتی فائد ہو۔بنا بریں فقہاء کے نزدیک وہ شرط معتبر ہوگی جو لین دین کے وقت ہو۔اور جو شرط وقت بیع سے قبل یا بعد میں ہواس کا اعتبار نہ ہوگا۔
بیع میں دو قسم کی شرائط عائد ہوتی ہیں:
1۔شرائط صحیحہ:یہ وہ شرائط ہیں جو صحت بیع کے منافی نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"المُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ" "مسلمان باہمی شرائط کے پابند رہیں۔"[2]
قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ہر شرط جائز ہے سوائے اس کے جسے شارع نے باطل اور ناجائز قراردیا ہے۔شرائط صحیحہ کی دو قسمیں ہیں:
1۔ جو شرط"عقدبیع" کی مصلحت اور اس کی مضبوطی کا سبب ہو۔اس شرط کا فائدہ شرط لگانے والے کو ہوتا ہے،مثلاً:گروی شے کے ذریعے سے توثیق کی شرط عائد کرنا یا کسی کو ضامن مقرر کرنے کی شرط لگانا۔اس شرط کا فائدہ یہ ہے کہ بائع مطمئن ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایک مقرر مدت تک سودے کی پوری رقم یا اس کے کچھ حصے کی ادئیگی میں ادھار کی شرط لگانا وغیرہ۔
[1] ۔(ضعیف) غایۃ المرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام ،حدیث 13 واغاثۃ اللھفان من مصائد الشیطان:1/486۔
[2] ۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث :1352۔