کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 233
دوران گمشدگی میں کسی سے بطور وراثت اسے ملا ہو اور محفوظ ہو اس تمام مال کو ان ورثاء پر تقسیم کیا جائے گا جو قاضی کے حکم موت صادر کرنے کے وقت زندہ ہوں۔ اور جو مدت انتظار کے دوران میں فوت ہو گئے وہ اشخاص وارث نہ ہوں گے کیونکہ قاضی کا فیصلہ مدت انتظار میں مرنے والوں کے بعد جاری ہوا ہے۔
میراث لینے کے لیے مورث کی وفات کے بعد وارث کا زندہ ہونا شرط ہے۔
اجتماعی موت پر میراث کے احکام
اجتماعی موت کے واقعات عموماً وقوع پذیر ہوتے رہتےہیں۔جب دو یا دوسے زیادہ ایک دوسرے سے میراث لینے والے لوگ یکبار اکٹھے فوت ہو جائیں اور پہلے اور بعد میں مرنے والوں کا پتہ نہ چل سکے کہ کون وارث بنا اور کون موروث، مثلاً: دیوار کے نیچے آگئے یا پانی میں ڈوب گئے یا آگ میں جل گئے یا طاعون وغیرہ کی زد میں آگئے یا معرکہ جنگ میں کام آگئے یا کار، بس ،ہوائی جہاز ، ریل گاڑی وغیرہ کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جب اجتماعی موت کا واقعہ ہو جائے تو اس معاملے کی پانچ حالتیں ممکن ہیں:
1۔ متعدد افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون تو اس صورت میں فوت شدگان آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ ہر ایک کا ترکہ ان کے زندہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہو گا کیونکہ کسی کو وارث بنانے کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہو لیکن یہ شرط اس جگہ مفقود ہے۔
2۔ اگر معلوم ہو گیا کہ ایک شخص دوسرے سے پہلے فوت ہوا تھا۔ اس میں کوئی بھول یا شک شبہ نہ ہو تو متاخر شخص مقدم کابالا جماع وارث ہو گا کیونکہ مورث کی موت کے بعد وارث کا زندہ ہو نا ضروری ہے جو یہاں ثابت شدہ ہے۔
3۔ بعض افراد کی موت بعض سے متاخر واقع ہوئی لیکن یہ علم نہ ہو سکا کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون ۔
4۔ یہ معلوم تھا کہ فلاں پہلے مرا اور فلاں بعد میں لیکن یہ ترتیب یاد نہ رہی۔
5۔ موت کے واقعے کا بروقت علم نہ ہوسکا، چنانچہ معلوم نہ ہوا کہ سب بیک وقت فوت ہوئے یا یکے بعد دیگرے۔
آخری تین حالتوں میں احتمال کی گنجائش ہے جس میں نظرو فکر سے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں علمائے کرام کے دو قول ہیں:
ان مذکورہ تینوں صورتوں میں مرنے والے باہم وارث نہیں ہوں گے۔ یہ قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت