کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 229
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب بچہ ولادت کے بعد چیخ مارے تو اس سے زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ چیخ کے سوا دوسرے امور میں اختلاف ہے جن میں بچے کا حرکت کرنا، دودھ پینا، یا سانس لینا ہے ۔علماء میں سے بعض تو صرف چیخ والے معنی کا اعتبار کرتے ہیں دوسرے کسی معاملے کو شامل نہیں کرتے۔ اور بعض علماء چیخ کے ساتھ ساتھ ہر اس امر کو معتبر سمجھتے ہیں جس سے زندگی کے آثار معلوم ہوں اور یہی مسلک راجح ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ"اسْتَهَلَّ"کے معنی صرف چیخ مارنا ہی نہیں بلکہ بعض علماء کے نزدیک اس میں حرکت وغیرہ بھی شامل ہے ۔اگر بالفرض "اسْتَهَلَّ"کے معنی صرف چیخ یا آواز ہی ہو تو یہ دوسری علامات کے ذریعے سے استدلال سے مانع نہیں۔ واللہ اعلم۔
حمل کو حصہ دینے کا طریقہ:
جب کسی کے ورثاء میں ایسا حمل شامل ہو جس کے وارث یا عدم ہونے کا علم نہ ہو اور ورثاء اس کی پیدائش سے قبل ہی ترکہ کی تقسیم کا مطالبہ کریں۔ اس صورت میں اختلاف سے نکلنے کے لیے مناسب یہ ہے کہ حمل کے وضع ہونے کا انتظار کیا جائے تاکہ کیفیت حمل واضح ہو جائے، نیز تقسیم ترکہ ایک ہی بار ہو۔
اگر ورثاء تقسیم ترکہ میں تاخیر اور وضع حمل کے انتظار کرنے پر رضا مند نہ ہوں تو کیا ترکہ کی تقسیم کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں علمائے کرام کے دو قول ہیں:
(1)۔انھیں ترکہ تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کی صورت حال مشکوک ہے، نیز حمل ایک سے زائد بچے بھی ہو سکتے ہیں جس کی بنا پر حمل اور اس کے ساتھ شریک ورثاء کے حصوں کی مقدار میں فرق اور اختلاف ممکن ہے ،لہٰذا وہ وضع حمل کے بعد کی صورت حال کے واضح ہونے کا انتظار کریں۔
(2)۔ورثاء تقسیم ترکہ کا مطالبہ کرنے کے مجاز ہیں ۔انھیں وضع حمل کے انتظار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں ان کا نقصان ہے۔ممکن ہے وہ ایسے محتاج اور فقیرہوں جن کے لیے وضع حمل کی طویل مدت کا انتظار کرنا مشکل ہو۔ باقی رہا حمل تو بطور احتیاط اس کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ رکھا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ تقسیم ترکہ کی تاخیر کی کوئی وجہ نہیں۔
دوسرا قول راجح معلوم ہوتا ہے لیکن اس قول کے قائلین میں اختلاف ہے کہ حمل کے لیے کتنی مقدار میں ترکہ سے حصہ رکھا جائے کیونکہ اس کی حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ۔اس میں بہت سے احتمالات ہیں، مثلاً: وہ زندہ پیدا ہو گا یا مردہ، ایک بچہ ہے یا ایک سے زیادہ، لڑکا ہے یا لڑکی۔ بلا شبہ یہ احتمالات ورثاء کے حقوق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حمل کے حصے کی مقدار میں جو اختلاف ہے اس میں تین اقوال مشہور ہیں:
1۔ تعداد حمل کو مقرر کرنا مشکل ہے کیونکہ عورت کتنی جنینوں کو پیٹ میں اٹھاتی ہے ان کی تعداد معلوم کرنا ممکن نہیں ،البتہ جو ورثاء حمل کے ساتھ حصول ترکہ میں شریک ہوں اگر کوئی ایک صورت میں وارث ہواوردوسری میں محجوب یا وہ