کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 215
کے علاوہ ابویوسف اورمحمد بن حسن شیبانی رحمہما اللہ وغیرہ اہل علم کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسلک کا حاصل یہ ہے کہ دادے کے ساتھ شریک ہونے والے بھائی صرف عینی ہوں گے یا صرف علاتی یا دونوں قسم کے۔اگر صرف ایک قسم کے بھائی ہوں تودادے کی دو حالتیں ہوں گی: 1۔ دادے اور بھائی کے ساتھ کوئی صاحب فرض شریک نہ ہو،چنانچہ اس کی پھر تین حالتیں ہیں ان میں سے جو حالت بہتر ہوگی اس کی روشنی میں اسے حصہ ملے گا۔ (1)۔تہائی مال کے بجائے مقاسمت(دادے کو بھائیوں کی طرح ایک بھائی فرض کرکے مال تقسیم کرنا مقاسمت کہلاتاہے) کی صورت میں اسے حصہ دیا جائےگا۔اس کا ضابطہ یہ ہے کہ بھائی دادے سے نصف یا نصف سے کم مال لیں۔اس کی پانچ صورتیں ہیں: پہلی صورت : دادا اور بہن۔۔۔اس صورت میں مقاسمت کےساتھ دادے کاحصہ دو تہائی ہے کیونکہ بہن کے لیے تہائی ہے۔ دوسری صورت : دادا اور بھائی۔۔۔اس صورت میں دادے کے لیے نصف ترکہ ہے۔ تیسری صورت : دادا اور دو بہنیں۔۔۔اس صورت میں بھی دادے کا حصہ نصف ہے۔ چوتھی صورت: دادا اور تین بہنیں۔۔۔اس صورت میں دادےکے لیے 5/2حصہ ہے جو تہائی سے زائد ہی ہے۔ پانچویں صورت :دادا،ایک بھائی اور ایک بہن۔۔۔اس صورت میں بھی ارادے کا وہی حصہ ہے جو ابھی چوتھی صورت میں بیان ہواہے۔ (2)۔دادے کو مقاسمت سے دیا جائے یا کل ترکہ کا تہائی،دونوں صورتوں میں اس کا یکساں حصہ ہے۔اس حالت میں بھائیوں کو دادے سے دوگنا ملتا ہے اس کی تین صورتیں ہیں: پہلی صورت:دادا اور دو بھائی۔ دوسری صورت:دادا،بھائی اور دو بہنیں۔ تیسری صورت:دادا اور چاربہنیں۔ ان صورتوں میں دادے کے لیے مقاسمت اور ثلث برابر ہیں،یعنی دونوں حالتوں میں ایک تہائی ہی ملے گا۔ اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ گزشتہ حالت میں مقاسمت کا اعتبار کرتے ہوئے دادے کو عصبہ قراردیں گے یاتہائی کااعتبار کرتے ہوئے صاحب فرض کہیں گے یا مقاسمت اور تہائی دونوں کا اعتبار کرتے ہوئے عصبہ یافرض کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔بعض علماء نے تہائی کا اعتبار کرتے ہوئے اسے صاحب فرض تسلیم کیا ہے نہ کہ مقاسمت کا