کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 204
3۔ میت کا باپ وارث نہ ہو اور صحیح قول کے مطابق دادا بھی وارث نہ ہو۔
4۔ میت کی اولاد :بیٹا،بیٹی یا پوتا،پوتی وغیرہ(وارث) نہ ہو۔تیسری اورچوتھی شرط کی دلیل یہ ہے کہ یہاں بھائی اور بہن کلالہ کے وارث بن رہے ہیں اور کلالہ وہ ہوتا ہے جس کا والد اور اولاد موجود نہ ہو۔
(4)۔علاتی بہن نصف ترکہ کی حقدار ہے جب درج ذیل پانچ شرائط موجود ہوں۔چارشرائط تو وہی ہیں جو سگی بہن کی میراث کے تحت ابھی بیان ہوئی ہیں اور پانچویں شرط یہ ہے کہ میت کا کوئی سگا بھائی یا سگی بہن نہ ہو کیونکہ سگے بھائی بہن کا رشتہ علاتی بہنوں کی نسبت قوی تر ہے۔
(5)۔سگی بہنیں دو یا زیادہ ہوں تو ان کا حصہ دوتہائی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ "
"پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے مال کا دو تہائی ملے گا۔"[1]
دو تہائی ترکہ لینے کی چار شرائط ہیں:
1۔ وہ تعداد میں دو یادو سے زیادہ ہوں۔آیت:( فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ) سے استدلال ہے۔
2۔ ان کوعصبہ بنانے والا ان کا سگا بھائی موجود نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ"
’’ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے مثل دو عورتوں کے حصہ ہے ۔‘‘[2]
3۔ میت کی وارث اولاد(بیٹا،بیٹی یا پوتا،پوتی) موجود نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ "
"اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو،پھر اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے مال کا دو تہائی ملے گا۔"[3]
4۔ میت کا باپ اور دادا موجود نہ ہو یا وارث نہ ہو۔
(6)۔علاتی بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کا مجموعی حصہ دو تہائی ہے کیونکہ آیت کلالہ کے مفہوم عام میں وہ بھی بالاجماع شامل ہیں،چنانچہ فرمان الٰہی ہے:
[1] ۔ النساء:4/176۔
[2] النساء:4۔176۔
[3] ۔النساء 4۔176۔