کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 200
واسطہ ہے ۔اسی طرح کبھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا،پھربھی محروم کردیتاہے جیسے پوتا اپنے چچے کو یا بھتیجا میت کے چچے کو محروم کردیتاہے۔تو اصل قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جوکسی کی میراث کا وارث ہو وہ اقرب شخص کے ہوتے ہوئے ساقط ہوجاتاہے۔۔۔جدہ ماں کے قائم مقام ہوتی ہے،لہذا اس کی موجودگی میں ساقط،یعنی محروم ہوگی اگرچہ وہ ماں کے واسطے سے حصہ نہیں لے رہی۔[1] بیٹی اور پوتی کی میراث کابیان جب بیٹی اکیلی ہوتووہ دوشرطوں کے ساتھ نصف ترکہ کی حقدار ہے۔ 1۔ اس کے ساتھ اس کی دوسری کوئی بہن نہ ہو۔ 2۔ اس کو عصبہ بنانے والا کوئی بھائی بھی نہ ہو۔دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ " "اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔"[2] الله تعالیٰ کے فرمان:( وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اکیلی ہونا شرط ہے۔ اور اللہ کے فرمان:(لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ )سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عاصب(کسی کو عصبہ بنانے والے) کا اس کے ساتھ نہ ہونا شرط ہے۔ پوتی کے نصف ترکہ لینے کی تین شرائط ہیں: 1۔ اس کا عاصب کوئی نہ ہو جو اس کا بھائی یا اس کے درجے کا چچے کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ 2۔ اس کے ساتھ اس کی بہن یا اس کے درجے کی چچازاد بہن نہ ہو۔ 3۔ میت کاکوئی ایسا وارث فرع(اولاد یا اولاد کی اولاد وغیرہ) موجود نہ ہوجو پوتی(پر پوتی وغیرہ) کی نسبت میت سے قریب تر ہو،مثلاً:بیٹا،بیٹی وغیرہ۔
[1] ۔مجموع الفتاویٰ 16/204۔ [2] ۔النساء:4/11۔