کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 198
کے مطابق سنت رسول میں تیرا حصہ ہے۔ ہاں تو واپس چلی جا میں لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کروں گا۔ جب لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس مجلس میں موجود تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی نانی کو چھٹا حصہ دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر وہی بات کہی جو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہی تھی، چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کے پاس کسی اور میت کی دادی آئی جو اپنی میراث کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تیرے لیے کتاب اللہ میں علیحدہ کوئی حصہ نہیں۔ اور جو پہلے فیصلہ کیا گیا ہے وہ تیری غیر کے لیے ہے اور میں وراثت میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں کر سکتا۔ بس وہی چھٹا حصہ ہی ہے جو تم دونوں (نانی دادی) کو ملے گا اگر تم اکٹھی ہو اور اگر تم میں سے کوئی ایک اکیلی وارث ہو تو وہ حصہ اسی کو مل جائے گا۔[1]
اس طرح سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جدہ کے لیے چھٹا حصہ تب مقرر کیا جب میت کی ماں نہ ہو۔[2]
ان دو روایتوں سے ثابت ہوا کہ جدہ صحیحہ کے لیے میراث میں سے چھٹا حصہ ہے جیسا کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تھا کہ اس(جدہ) کے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ قرآن میں مذکورہ ماں کئی قیود کے ساتھ مقید ہے جو کہ قریبی ماں کے ساتھ حکم کو خاص کرتی ہے، جدہ(دادی، نانی)کو اگرچہ ماں کہا گیا ہے مگر وراثت میں مذکورہ جدہ ماں کے حکم میں داخل نہیں جبکہ قرآن میں مذکورہ "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ"میں(دادی نانی) شریک ہیں۔[3]لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (جدہ) کو سدس (چھٹا حصہ) دیا ہے۔
اسی طرح جدہ کی میراث علمائے امت کے اجماع سے ثابت ہے۔ نانی دادی کے حق میراث میں تو کسی صاحب علم کا اختلاف نہیں، البتہ ان دونوں کے علاوہ میں اختلاف ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور علماء کی ایک جماعت کا فرمان ہے:ایک درجہ کی جدہ صحیحہ ایک ہو یا زیادہ تمام کی تمام وارث ہوں گی، البتہ ان کے نزدیک جدہ فاسدہ وارث نہیں، مثلاً: نانا کی ماں۔بعض علماء نے تین جدات کو وارث قراردیا ہے اور وہ ہیں نانی، دادی اور دادا کی ماں۔
[1] ۔(ضعیف ) سنن ابی داؤد، الفرائض باب فی الجدۃ ،حدیث2894وجامع الترمذی، الفرائض ،باب ماجاء فی میراث الجدۃ ،حدیث 2101۔وسنن ابن ماجہ، الفرائض، باب میراث الجدۃ حدیث2724۔ومسند احمد: 4/225۔226۔
[2] ۔(ضعیف ) سنن ابی داؤد، الفرائض ،باب فی الجدۃ ،حدیث2895۔
[3] ۔مجموع الفتاوی :31/352۔