کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 197
اس مسئلے کو"عمر يتين"اس لیے کہا جاتا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس میں فیصلہ دیا کہ ماں کے لیے زوجین میں سے کسی ایک کی موجودگی میں"ثلث ما بقي"ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ماں کے لیے "ثلث ما بقي"کا حصہ نہایت درست ہے کیونکہ صرف والدین کے وارث ہونے کی صورت میں قرآن نے ماں کو تہائی حصہ دیا ہے۔ اگر زوجین میں سے کوئی شامل ہو تو اسے اس کا حصہ دے کر باقی والدین کا ہے تو اسے اصل کی طرح ہی تقسیم کریں گے جیسا کہ میت پر قرض ہو یا اس نے وصیت کی ہو تو پہلے اسے ادا کریں گے، پھر باقی مال تین حصے کر کے تقسیم کریں گے کہ ماں کو ایک حصہ اور باپ کو دو حصے ملیں گے۔"[1]
جدہ صحیحہ (دادی نانی) کی میراث کا بیان
جدہ صحیحہ سے مراد وہ عورت ہے جس کی میت کے ساتھ قرابت بواسطہ جد فاسدہ [2]نہ ہو، مثلاً:نانی پر نانی یا دادی پر دادی وغیرہ ۔ اور اگر کسی کی میت کے ساتھ قرابت بواسطہ جد فاسد ہو تو وہ جدہ فاسدہ ہے جو وارث نہ ہو گی کیونکہ وہ ذوی الاحارم میں شامل ہے۔ مثلاً:ماں کے باپ (نانا) کی ماں وغیرہ۔
جدہ جو وارث بن سکتی ہے اس کا ضابطہ یہ ہے کہ میت سے اس کی قرابت صرف مؤنثوں کے ذریعے سے ہو جیسے نانی پر نانی وغیرہ یا اس کی قرابت صرف مذکر کے ساتھ ہو، جیسے دادی پر دادی وغیرہ۔
جدہ جو وارث نہیں بن سکتی اس کا ضابطہ یہ ہے کہ قرابت مذکر کے ذریعے سے ہو، جیسے ماں کے باپ کی ماں(ماں کی دادی ) یا (دادی کی دادی) دوسرے الفاظ میں،وہ عورت جس کی میت کی طرف نسبت کرتے ہوئےدو مؤنثوں کے درمیان ایک مذکر ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر جدہ صحیحہ وارث ہو گی جبکہ جدہ فاسدہ وارث نہ ہو گی۔
جدہ صحیحہ کے وارث ہونے کی دلیل سنت رسول اور اجماع ہے۔
حضرت قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی میت کی نانی حاضر ہوئی اور اس نے اپنے حق میراث کی مقدار پوچھی تو آپ نے فرمایا: کتاب اللہ میں تیرا حصہ کچھ نہیں ہے اور نہ میرے علم
[1] ۔مجموع الفتاوی :16/197۔198۔بتصرف۔
[2] ۔جد فاسد وہ ہے جس کے اور میت کے درمیان واسطہ عورت ہو، مثلاً:نانا یا دادی کا باپ وغیرہ۔(صارم)