کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 196
نہایت قوی اور کثیر دلائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نزدیک یہ رائے پہلی رائے سے قوی ترہے۔[1]
ماں کی میراث کا بیان
ماں کے حصہ پانے کی تین صورتیں ہیں:
1۔ دو حالتوں میں چھٹا حصہ لیتی ہے:
(1)۔جب میت کی مذکر یا مونث اولاد ہو جو وراثت کی حقدار ہو یا بیٹے کی اولاد ہو۔
(2)۔جب میت کے کسی بھی قسم کے دو یا زیادہ بھائی بہنیں ہوں خواہ وہ وارث ہوں یا نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ"
’’اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے۔اگر اس (میت ) کی اولادہو،اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔ ہاں !اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[2]
2۔ ماں کو کل مال کا ایک تہائی حصہ ملے گا جبکہ مندرجہ بالا دونوں حالتیں نہ ہو۔ یعنی نہ تو میت کی اپنی صلبی اولادہے اور نہ بیٹے کی اولاد ہے ۔اور نہ ہی میت کے بھائی بہن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ"
’’پس اگراولادنہ ہو،اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے۔ہاں !اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[3]
3۔ ماں کو باقی ماندہ ترکہ میں سے ایک تہائی ملے گا جبکہ دو صورتوں "عمر يتين"میں سے کوئی ایک صورت ہو جو یہ ہیں :
(ا)خاوند،ماں،اور باپ (یہ مسئلہ چھ کے عددسے بنے گا۔)
(ب)بیوی ،ماں اور باپ (یہ مسئلہ چار کے عددسےبنے گا۔)
[1] ۔جو صاحب علم اس مسئلے میں تفصیل کا طالب ہو وہ تفہیم المواریث "کا مطالعہ کرے۔(صارم)
[2] ۔النساء:4/11۔
[3] ۔النساء:4/11۔