کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 193
یہ ہیں وہ مرد اور عورتیں جنھیں اسلام نے وارث قراردیا ہے۔ اگر ہم مزیدتفصیل میں جائیں تو مرد ورثاء کی تعداد پندرہ (15)جب کہ عورتوں کی تعداد دس(10) تک پہنچ جاتی ہے۔ تفصیل اس موضوع کی اہم اور بڑی کتب میں موجود ہے۔
وارث بننے کے اعتبار سے ورثاء کی اقسام
وراث بننے کے اعتبار سے ورثاء کی تین قسمیں ہیں: (1)اصحاب الفروض (2)عصبات(3)ذووالارحام۔ ہر ایک کی تعریف درج ذیل ہے۔
1۔ اصحاب الفروض :وہ ورثاء جن کا حصہ شریعت میں مقرر ہے۔ ان کے حصے میں اضافہ صرف رد کی صورت میں ہو سکتا ہےاور کمی صرف عول کی صورت میں ہو سکتی ہے۔
2۔ عصبات : وہ ورثاء جو اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں ۔اگر وہ اکیلا ہو تو سارے مال کا حقدار ہوتا ہے۔
3۔ ذووالارحام:وہ ورثاء جو اس وقت وارث ہوتے ہیں جب اصحاب الفرائض (زوجین کے علاوہ) اور عصبات نہ ہوں۔
اصحاب الفرائض ورثاء کی تعداد بارہ ہے جن میں چار مرد، یعنی باپ، دادا ،خاوند اور اخیافی بھائی ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں، یعنی ماں ،دادی (دادی کے ساتھ نانی بھی شریک ہے) بیوی ، بیٹی، پوتی ،اخیافی بہن ، عینی بہن اور علاتی بہن ۔اب ہم ہر صاحب فرض کے حصے کی تفصیل سے آپ کو آگاہ کریں گے۔
خاوند اور بیوی کی میراث کا بیان
خاوند نصف ترکہ کا حقدار ہے بشرطیکہ اس کی فوت شدہ بیوی کی اپنی اولاد نہ ہو یا بیٹے کی اولاد نہ ہواور وہ چوتھائی ترکہ کا حقدار ہے جب اس کی فوت شدہ بیوی کی اولاد ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد ہو۔[1]اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ "
’’تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا (نصف) تمہارا ہے۔اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارےلیے چوتھائی حصہ ہے اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔‘‘ [2]
[1] ۔بیوی کی اولاد ،خواہ موجود شوہر سے ہو یا سابق شوہر سے ہو۔(صارم)
[2] ۔النساء:4/12۔