کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 190
درج ذیل ہیں:
(1)۔ بیٹا پوتا نیچے تک۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ "
"اللہ تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔"[1]
یاد رہے جب بیٹا موجود نہ ہو تو پوتا اس کا قائم مقام ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"يَا بَنِي آدَمَ"اے آدم کے بیٹو!
نیز فرمایا: "يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ "اے یعقوب کے بیٹو!
(2)۔باپ دادا اوپر تک، یعنی جن کا تعلق میت سے محض مردوں کے ذریعے سے ہو (وارث اور میت کے درمیان عورت کا واسطہ نہ ہو۔)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ"
’’اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے مال کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ [2]
دادا باپ کے قائم مقام ہوتا ہے(جبکہ باپ زندہ ہو۔)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے دادا کو چھٹا حصہ دیا تھا۔
(3)۔بھائی : بھائی تین قسم کے ہوتے ہیں:(1) عینی ،یعنی ماں باپ دونوں کی طرف سے سگے ہوں۔(2) علاتی: یعنی جو صرف باپ کی طرف سے سگے ہوں۔(3) اخیافی، یعنی جو صرف ماں کی طرف سے سگے ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے حق وراثت کو یوں بیان کیا ہے:
"يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ "
" وہ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس( بہن کے کل مال) کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو۔ "[3]
اس آیت میں عینی اور علاتی بھائیوں کا ذکر ہے۔ اخیافی بھائی بہن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
"وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ"
[1] ۔النساء:4/11۔
[2] ۔النساء:4/11۔
[3] ۔النساء 4/176۔