کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 187
محروم کردے گا۔"[1]
شرعی احکام میراث میں تصرف وتغیر کی صورت یہ ہے کہ غیر وارث کو وارث قراردینایا کسی وارث کو اس کے تمام حصے سے یا کچھ حصے سے محروم کر دینا یا مرد اور عورت کا حصہ میراث برابر کو دینا جیسا کہ بعض کفر یہ قوانین میں موجود ہے جو سراسر اللہ تعالیٰ کے حکم:"مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔"کے مخالف ہے۔ ایسی ترامیم کرنے والا شخص کافر ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے الایہ کہ وہ موت سے قبل توبہ کرلے۔
دور جاہلیت میں لوگ عورتوں اور بچوں کو حق میراث سے محروم رکھتے تھے اور ان بالغ مردوں کو حق دار سمجھتے تھے جو گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل ہوں اور اسلحہ اٹھا(کر جنگ کر) سکتے ہوں۔اسلام نے اس قانون کو باطل قراردیا ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا"
("ماں باپ اور قرابت داروں کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی ۔جو مال ماں باپ اور قرابت دار چھوڑ کر مریں، خواہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں)حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔"[2]
اس آیت میں عورتوں اور بچوں کو میراث نہ دینے کا قانون جاہلیت ختم کر دیا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان :
"يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ "
’’ اللہ تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ [3]
اور فرمان الٰہی :
"وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ"
’’ اور اگر کئی بھائی بہن ،یعنی مرد بھی اور عورتیں بھی ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے مثل حصہ ہے۔‘‘ [4]
میں جدید جاہلی دعووں کو باطل قراردیا گیا ہے جن میں عورت کو مرد کے برابر میراث دے کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور حدود اللہ سے تجاوز کیا گیا ہے۔
واضح رہے قدیم جاہلیت کے قانون میں عورتیں حق میراث سے محروم ہوتی تھیں جبکہ جدید جاہلیت کے قانون
[1] ۔تفسیر فتح القدیر، النساء 4/13۔14۔واللفظ لہ، و سنن ابن ماجہ، بلفظ :"مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ ...."الوصایا، باب الحیف فی الوصیۃ،حدیث 2703۔ (یہ روایت ضعیف ہے)۔
[2] ۔النساء:4۔7۔
[3] ۔النساء:4/11۔
[4] النساء:4/176۔