کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 185
"الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ : آيَةٌ مُحْكَمَةٌ ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ " ’’(بنیادی)علم تین ہیں ان کے سوا سب علوم ایک زائد فضیلت کا باعث ہیں:" محکم آیات کا علم، سنت صحیحہ ثابتہ کا علم یا علم الفرائض جس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہے۔‘‘ [1] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: "تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَإِنَّهَا مِنْ دِينِكُمْ" "علم فرائض سیکھو کیونکہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔"[2] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: "مَن تَعَلَّم الْقُرْآنَ، فَلْيَتَعَلَّم الْفَرَائِضَ" "جو شخص قرآن مجید کا علم حاصل کرے وہ فرائض کا علم بھی سیکھے۔"[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی :"علم فرائض نصف علم ہے۔" کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی دوحالتیں ہیں: ایک حالت حیات اور دوسری حالت موت۔ علم فرائض کا تعلق موت کے بعد کے احکام سے ہے جبکہ بقیہ علوم حیات سے متعلق ہیں۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو اس علم سے واسطہ پڑتا ہے، یعنی لوگ تقسیم ترکہ میں علم فرائض کے زیادہ محتاج ہیں۔ اسی طرح بعض علماء نے اس کے اور بھی مطالب بیان کیے ہیں۔ الغرض مقصد یہ ہے کہ اس علم کی تعلیم و تدریس میں اہتمام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس علم کو علم الفرائض کہا جاتا ہے۔فرائض: فریضہ کی جمع ہے جو فرض سے ماخوذ ہے۔ فرض کے لغوی معنی مقرر کرنے کے ہیں، اس لیے کہ اس علم میں ورثاء کے حصے مقرر شدہ ہوتے ہیں۔ لہذا فریضۃ وہ مقرر حصہ ہے جو شریعت نے مستحق شخص کے لیے مقرر کیا ہے۔ علم فرائض کی تعریف یوں کی جاتی ہے:"فقہ و حساب سے متعلق ان اصولوں کو جاننا جن کے ذریعے سے ترکہ میں سے وارثوں کے حصے معلوم ہوں۔" میت کے ترکہ سے متعلق چار[4] حقوق ہیں:
[1] ۔(ضعیف) سنن ابی داؤد،الفرائض باب ماجاء تعلیم الفرائض، حدیث 2885 وسنن ابن ماجہ السنۃ (المقدمۃ) باب اجتناب الرای والقیاس، حدیث54۔ [2] ۔السنن الکبری للبیہقی 6/209۔ [3] ۔السنن الکبری للبیہقی 6/209۔ [4] ۔اصل کتاب میں پانچ کا لفظ ہے اور یہ تصحیح علم وراثت کی معتبر کتاب السراجی اور فقہ المواریث سے کی ہے۔