کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 182
وصی کا مکلف ہونا بھی ضروری ہے، یعنی وہ عاقل و بالغ ہو،لہٰذا بچے، کم عقل اور پاگل شخص پر یہ ذمے داری ہر گز نہ ڈالی جائے کیونکہ یہ لوگ مالی معاملات میں ولی بننے اور تصرف کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔البتہ بچے کو "وصی بناتے وقت یہ شرط عائد کردینا کہ وہ وصیت پر عمل تب کروائے جب بالغ ہو جائے تو یہ درست ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
"أميركم زيد بن حارثة، فإن قتل فجعفر بن أبى طالب"
"تمہارا امیر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما ہے اگر وہ شہید ہو جائے تو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو امیر بنالینا ۔"[1]
عورت کو وصی بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ امور وصیت اور اس کے احکام کو سمجھتی ہو، نیز وصیت کو نافذ کر سکتی ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنا وصی بنایا تھا۔[2]اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت مرد کی طرح شہادت دے سکتی ہے تو وہ وصی بھی بن سکتی ہے۔
اگر کوئی شخص وصیت پر عمل در آمد کی طاقت نہیں رکھتا لیکن وہ فکر سلیم اور عقل و دانش کا مالک ہے تو اسے وصی بنایا جا سکتا ہے، البتہ بطور معاون اس کے ساتھ ایسا شخص مقرر کیا جائے جو وصیت کے نفاذ کی قدرت رکھتا ہو اور امانت دار ہو۔
وصی ایک سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ انھیں یکبارگی وصی مقرر کیا گیا ہو یا ایک ایک کر کے جبکہ پہلے کو معزول بھی نہ کیا ہو۔
اگر ایک سے زیادہ افراد کو وصی مقرر کیا گیا ہو تو نفاذ وصیت کے عمل میں سبھی شریک ہوں گے۔ ان میں کوئی بھی دوسرے کے بغیر مال میں تصرف نہ کرے۔ اگر ایک کہیں غائب ہو گیا یا فوت ہوگیا تو حاکم کو چاہیے کہ اس کی جگہ کسی اور کو مقرر کر دے جو امور وصیت کو اچھی طرح نبھا سکے۔
وصی(جس کو وصیت کی گئی)موصی (وصیت کرنے والا) کی وصیت کو اس کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد قبول کر سکتا ہے، نیز وہ موصی کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد (جب چاہے)اس ذمے داری سے الگ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح موصی وصی کو جب بھی چاہے وصیت کی ذمے داری سے معزول کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حیثیت ایک وکیل کی سی ہوتی ہے۔
وصی کسی دوسرے شخص کو وصی نہیں بنا سکتا الایہ کہ موصی نے اسے اجازت دی ہو،مثلاً:موصی وصی کو کہے :"میں
[1] ۔التمہید لا بن عبدالبر:8/388۔
[2] ۔سنن الدارمی الوصایا باب الوصیة للنساء حدیث 3298۔