کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 179
وصیت کرنا درست نہیں، مثلاً: کسی مسلمان کا یہودو نصاری یا ان کے فقراء کے حق میں وصیت کرنا ۔اسی طرح کسی معین کافر کو بصورت وصیت کسی ایسی چیز کا مالک بنانا جن کا ان کو مالک بنانا جائز نہیں، ناجائز ہے، مثلاً: اسے نسخہ قرآن یا مسلمان غلام یا اسلحہ دینے کی وصیت کرنا۔
ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے حق میں وصیت جائز ہے بشرطیکہ وقت وصیت اس کا پیٹ میں ہو نا ثابت ہو۔ اس کا علم تب ہو گا اگر حاملہ وقت وصیت سے چھ ماہ کے پورے ہونے سے قبل اسے جنے بشرطیکہ اس کا شوہر یا مالک موجود ہو۔ اگر وہ شوہر یا آقاوالی نہ ہو تو وہ چار سال سے کم مدت کے اندر اندر جنے کیونکہ جب ایسا حمل وارث قرارپاتا ہے تو اس کے حق میں وصیت بالاولی جائز ہے۔[1]اگر بچہ مردہ پیدا ہو تو اس کے حق میں کی گئی وصیت باطل ہو جائے گی۔
ایسے بچے کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں جس کا وجود بوقت وصیت پیٹ میں نہ ہو۔مثلاً: کوئی کہے: میں اس حمل کے حق میں وصیت کرتا ہوں جو فلاں عورت کے پیٹ میں آئندہ ہوگا۔
اگر کسی نے مال کی بڑی مقدار کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے کہا کہ "اس مال سے میری طرف سے حج کیا جائے۔"تو اس مال سے بار بار حج کروایا جائے یا متعدد افراد روانہ کیے جائیں حتی کہ وہ رقم ختم ہو جائے۔ اگر رقم کم ہو تو جس قدر وہ حج میں کام دے، استعمال میں لائی جائے۔ اگر موصی نے کہا کہ میری اس قدر کثیر رقم ایک ہی حج میں استعمال کی جائے تو اسے ایک ہی حج میں خرچ کیا جائے گا کیونکہ موصی کا مقصد حج کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ راحت و آرام پہنچانا ہے۔
جس شخص کو وصیت نافذ کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے، وہ اس مال وصیت سے حج نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جس شخص کا وراثت میں حصہ ہے وہ بھی اس وصیت سے مستفید نہیں ہو سکتا کیونکہ وصیت کرنے والے کا مقصد بظاہر اس کے علاوہ دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
جس میں مالک بننے کی اہلیت نہیں اس کے حق میں وصیت جائز نہیں، مثلاً: جن ،چوپایہ یا میت وغیرہ۔
معصیت کے کاموں میں وصیت کرنا جائز نہیں، مثلاً: گر جا گھروں یا کافروں اور مشرکوں کے معبد خانے کی تعمیر سے متعلق وصیت کرنا۔ اسی طرح مزاروں کی تعمیر، ان پر چراغاں کرنے یا ان کے مجاوروں کے لیے وصیت کرنا ۔اس کے بارے میں موصی کا فر ہو یا مسلمان برابر ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:" اگر کسی ذمی نے اپنا مال اپنی کسی عبادت گاہ کے لیے وقف کرنے کی
[1] ۔یہ مسئلہ محل نظر ہے۔