کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 178
’’اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے ہی پر ہو گا، واقعی اللہ سننے والا ،جاننے والا ہے۔‘‘[1] اس آیت کی تفسیر میں امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:"تبدیل تغییر کو کہتے ہیں آیت میں مذکور اس تبدل و تغیر کے نتیجے میں یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو ایسی وصیت کو بدلتا ہے جو حق کے مطابق ہواور اس میں کسی قسم کی زیادتی یا نقصان نہ ہو۔ لہٰذا بدلنے والا گناہ گار ہے، البتہ موصی پر اس کا کوئی بوجھ نہ ہو گا کیونکہ وہ وصیت میں حق بجانب تھا۔"[2] وصیت ہر اس شخص کے لیے جائز ہے جو مالک بننے کا اہل ہو، وہ مسلمان ہو یا کافر ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا " "(ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو۔"[3] حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں:’’اس آیت میں یہودی یا نصرانی کے لیے مسلمان کی وصیت کا جواز ثابت ہو تا ہے۔‘‘ [4] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو لباس دیا تھا۔[5] سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی مشرکہ ماں سے جو رغبت رکھتی تھی، صلہ رحمی کی تھی۔[6] اُم المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے یہودی بھائی کے حق میں تہائی ترکہ کی وصیت کی تھی۔[7] اس کے جواز میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "لا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ " "جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمھیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تمھیں نہیں روکتا۔ بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"[8] کسی معین کافر کے حق میں مسلمان کا وصیت کرنا درست ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے، غیر معین کافر کے حق میں
[1] ۔البقرۃ:12۔18۔ [2] ۔تفسیر فتح القدیر:1/195۔ [3] ۔الاحزاب:33۔6۔ [4] ۔تفسیر الطبری :21/124۔ [5] ۔ صحیح مسلم اللباس والزینۃ، باب تحریم لیس الحریر وغیر ذلک للرجا ل، حدیث 2068۔ [6] ۔ صحیح البخاری الھبۃ وفضلہا، باب الھدیہ للمشرکین حدیث 2620۔ [7] سنن الدارمی الوصایا باب الوصیۃ لاھل الذمۃ ،حدیث 3299۔والتلخیص الحبیر 3/93حدیث :1380۔ [8] الممتحنہ:60۔8۔