کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 176
بوقت موت وہی شخص وارث نہ رہا تو اس کے حق میں وصیت جائز ہو گی۔ مثلاً:بھائی جو پہلے وارث تھا اس کے حق میں وصیت کر دی گئی (جوناجائز تھی) پھر میت کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اب بھائی وارث نہ رہا لہٰذا اس کے حق میں کی گئی وصیت جائز ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی کے حق میں غیر وارث سمجھ کر وصیت کر دی گئی لیکن بوقت موت وہی شخص وارث بن گیا تو ورثاء کی اجازت کے بغیر اس کے حق میں وصیت جائز نہ ہو گی، مثلاً:بیٹے کی موجودگی میں بھائی کے حق میں وصیت کی گئی جو جائز تھی لیکن موصی کی موت سے قبل موصی کا بیٹا فوت ہو گیا تو اب بھائی وارث قرار پایا، لہٰذا ورثاء کی اجازت کے بغیر اس بھائی کے حق میں وصیت جائز نہ رہی۔ درج بالا حکم سے یہ بھی واضح ہوا کہ وصیت کو قبول کرنا اور وصیت کردہ پر قبضہ کرنا موصی کی موت کے بعد ہو گا ،پہلے نہیں کیونکہ موصی کی موت کے وقت ہی حق ثابت ہو گا، لہٰذا قبضہ بھی موت کے بعد ہو گا۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہمیں نہیں معلوم کہ اہل علم کے درمیان اس بات میں اختلاف ہو کہ وصیت کا اعتبار موت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وصیت کا تعلق غیر معین افراد سے ہے، مثلاً: فقراءو مساکین یا لاتعدادافراد ،مثلاً: بنو تمیم قبیلے کے لیے وصیت یا کسی مصلحت کے لیے ،مثلاً :مساجد کے لیے تو اس کے لیے قبول کی شرط نہیں ،محض موت واقع ہونے کے ساتھ ہی وصیت پر عمل کرنا لازم ہو گا۔اگر اس کے برعکس ہو، یعنی معین فرد کے لیے وصیت ہے تو بعد از موت قبول کرنے سے عمل لازم ہو گا۔"[1] موصی اپنی وصیت سے کلی یا جزوی طور پر رجوع کر سکتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:" آدمی اپنی وصیت میں حسب خواہش ترمیم کر سکتا ہے۔"[2]اہل علم کا اس پر اتفاق ہے، چنانچہ اگر وہ کہے:"میں نے وصیت سے رجوع کیا۔"یا" میں نے وصیت کالعدم کر دی ۔" تو وہ کالعدم ہو جائے گی کیونکہ قبول کرنے اور وصیت کے لازم ہونے میں موصی کی موت کا اعتبار ہے تو اسی طرح وصیت کرنے والا زندگی میں رجوع کر سکتا ہے، مثلاً:اگر اس نے کہا:"اگر زید آگیا تو جو کچھ میں نے عمرو کے حق میں وصیت کی ہے وہ اسے (زید کو)دے دینا۔"اب اگر زید وصیت کرنے والے کی زندگی میں آگیا تو وصیت کا مال اسے ملے گا کیونکہ وصیت کرنے والے نے عمر والی وصیت سے رجوع کر لیا ہے لیکن اگر زید وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد آیا تو وصیت عمر وہی کے لیے ہو گی کیونکہ جب اس کے آنے سے پہلے موصی فوت ہو گیا تو وصیت اول (عمرو) کے لیے متعین ہو گئی۔
[1] ۔المغنی والشرح الکبیر:6/460۔473۔ [2] ۔سنن الدارمی، الوصایا، باب الرجوع عن الوصیۃ حدیث 3212، 3211۔والتلخیص الحبیر 3/96حدیث :1380۔