کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 175
احکام وصیت میں سے ایک حکم یہ ہے کہ جس شخص کا کوئی وارث نہ ہو، وہ اپنے کل مال کی وصیت کر سکتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا:
"إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ "
’’ اگر تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ انھیں ایسی حالت میں چھوڑے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔‘‘ [1]
اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے مال کی وصیت کرنے سے جو روکا ہے وہ ورثاء کی وجہ سے ہے کہ وہ تنگ دست نہ ہوجائیں لیکن اگر کسی کے ورثاء نہ ہوں تب سارے مال کی وصیت کرنا جائز ہو گی کیونکہ اس سے کسی وارث یا قرض خواہ کے حق کا تعلق نہیں، پھر یہ ایسے ہی ہے جیسے صحت کی حالت میں سارا مال صدقہ کیا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا جواز منقول ہے، نیز علمائے کرام کی ایک جماعت اس کی قائل ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"درست بات یہی ہے کہ(جس کا کوئی وارث نہ ہو) اس کو جمیع مال کی وصیت کرنے کا اختیار ہے۔ایک تہائی سے زائد کی وصیت کرنے سے شریعت نے وارثوں کی موجودگی کی بنا پر روکا ہے۔جس کا کوئی وارث ہی نہیں تو اس کے مالی تصرفات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔"[2]
وصیت کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اگر موصی نے تہائی مال کی وصیت کی لیکن وہ مال"موصي لهم" (جن افراد کے حق میں وصیت ہوئی) کو حسب وصیت پورا نہیں مل رہا بلکہ کم پڑ رہا ہے، نیز ورثاء وصیت کردہ تہائی مال سے زائد مال خرچ کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تو ہر ایک موصیٰ لہ کو وصیت سے کم مال ملے گا اور باہمی نسبت بھی قائم رہے گی اس میں مقدم یا مؤخر کا لحاظ نہ ہو گا کیونکہ ہر ایک کو موصی کی موت کے بعد تبرعاً مال مل رہا ہے ،لہٰذا سب میں مال یکبارگی تقسیم ہو گا لیکن اصل حصے سے کم جیسا کہ مسئلہ عائلہ میں ہر وارث کو اس کے مقرر حصے سے کم ملتا ہے۔
مثال کے ذریعے سے وضاحت
اگر کسی نے ایک شخص کو سوروپے دینے کی اور دوسرے کو بھی سوروپے جب کہ تیسرے کو پچاس روپے،چوتھے کو تیس روپے اور پانچویں کو بیس روپے دینے کی وصیت کی جب کہ ترکے کا تہائی مال صرف سوروپے ہے اور وصیتوں کی مجموعی رقم تین سوروپے بنتی ہے تو اس تناسب سے ہر موصیٰ لہ کو اس کے لیے کی گئی وصیت کا تیسرا حصہ ملے گا، یعنی سوسوروپے والوں کو تینتیس تینتیس روپے تیس والے کو دس روپے ۔علی ھذا القیاس۔
وصیت کی درستی یا غیر درستی کا اعتبار بوقت موت ہو گا۔ اگر کسی نے وارث کے حق میں وصیت کر دی لیکن
[1] ۔صحیح البخاری الجنائز باب رثاء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم سعد بن خولہ حدیث 1295۔
[2] ۔ اعلام الموقعین:4/35۔