کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 172
لہٰذا اگر اس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں یا اس نے ان کے حقوق ادا کرنے ہیں تو اس پر ان کا لکھنا اور واضح کرنا واجب ہے۔
اور مستحب وصیت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مال کا ایک مخصوص حصہ کسی نیکی کے کام میں لگانے کی وصیت کرے تاکہ بعد از وفات اسے اجرو ثواب ملتا رہے۔ ایسے موقع پر شریعت اسلامی نے زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک وصیت کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی سراسر مہر بانی ہے تاکہ انسان زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کر سکے۔
سمجھ دار بچے کی وصیت درست ہے جیسا کہ اس کی نماز درست ہے۔جب موصی ،یعنی وصیت کرنے والا اپنی وصیت پر کسی کوگواہ بنادے یا بقلم خود تحریر کردےتو وصیت ثابت ہو جاتی ہے۔
وصیت کے احکام میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تہائی مال یا اس سے کم کی ہو، جبکہ بعض علماء کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ تہائی مال سے کم کی وصیت ہو۔ یہ رائے حضرت ابو بکر صدیق ، علی بن ابی طالب اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان :
"وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ"
"اور (اے مسلمانوں!)جان لو کہ تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو، اس میں سے پانچواں حصہ یقیناً اللہ کا ہے۔"[1]
کی بنا پر خمس(پانچویں حصے) کی وصیت پسند کرتا ہوں۔"[2]
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ" میں چوتھائی مال کی نسبت پانچویں حصے کی وصیت کرنا زیادہ بہتر خیال کرتا ہوں۔"[3]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:" کاش! لوگ تہائی مال کے بجائے چوتھائی مال کی وصیت کیا کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ " "ایک تہائی کی وصیت درست تو ہے لیکن تہائی مال ہے زیادہ۔"[4]
جس شخص کے وارث موجود ہوں، اسے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا جائز نہیں ،البتہ ورثاء کی رضا مندی اور اجازت سے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت جائز ہے کیونکہ تہائی مال سے زیادہ پر ورثاء کا حق ہے۔اگر کوئی
[1] ۔الانفال: 8/41۔
[2] ۔(ضعیف) السنن الکبری للبیہقی 6/270۔ وارواء الغلیل 6/85حدیث 1649۔
[3] ۔(ضعیف) السنن الکبری للبیہقی 6/270۔وارواء الغلیل 6/85حدیث 1650۔
[4] ۔ صحیح البخاری الجنائز باب رثاء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم سعد بن خولہ حدیث 1295۔ السنن الکبری للبیہقی :6/269۔