کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 171
صرف کرنے کا حکم دینا۔"یا دوسرے لفظوں میں یہ"موت کے بعد مال کے ذریعے سے تبرع کرنا"ہے۔
وصیت کی مشروعیت کتاب اللہ ، سنت رسول اور اجماع سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ "
"تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے۔ پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔"[1]
نیز فرمایا:
"مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ"
"(یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی۔"[2]
فرمان نبوی ہے:
"إِنَّ اللّٰهَ تَصَدَّقَ عَلَيْكُمْ بِثُلُثِ أَمْوَالِكُمْ عِنْدَ وَفَاتِكُمْ؛ زِيَادَةً فِي حَسَنَاتِكُمْ"
’’اللہ تعالیٰ نے تم پر مہربانی کی کہ بوقت وفات تہائی مال خرچ کرنے کا حکم دیا تاکہ تمہاری نیکیاں زیادہ ہو جائیں۔‘‘ [3]
وصیت کے جواز پر علمائے امت کا اجماع ہے۔
وصیت کرنا کبھی واجب ہوتا ہے اور کبھی مستحب ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہر اس حق کے بارے میں وصیت کرنا واجب ہے جو اس کا لوگوں پر ہے یا لوگوں کا اس پر ہے یعنی ان کے ساتھ لین دین ہے اور اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں۔ ایسے حقوق کے بارے میں وصیت لازمی ہے تاکہ ان کا ضیاع نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصَى فِيهِ ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ "
"کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ(اگر) وہ کسی چیز کی وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس میں دوراتیں گزاردے مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہونی چاہیے۔"[4]
[1] ۔البقرۃ:2/180۔
[2] ۔النساء:4/11۔
[3] ۔(ضعیف )سنن ابن ماجہ الوصایا باب الوصیۃ بالثلث، حدیث 2709۔وسنن الدارقطنی 4/149حدیث 4245۔
[4] ۔صحیح البخاری الوصایا باب الوصایا حدیث 2738وصحیح مسلم الوصیہ باب وصیہ الرجل مکتوبۃ عندہ حدیث:1627۔