کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 170
آنے کا خوف نہیں ہوتا تو یہ بڑھاپے کی طرح ہے۔ لیکن اگر کوئی دائمی مرض کی وجہ سے صاحب فراش بھی ہے تو وہ اس شخص کے حکم میں ہے جسے خطرناک مرض لاحق ہو۔وہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا جو غیر وارث کے حق میں ہو گی۔ ہاں وارث کے حق میں اس کی وصیت تب درست ہے جب دیگر ورثاء کی اجازت ہو۔
تہائی مال کی مقدار کا اعتبار عند الموت ہو گا کیونکہ وصیتوں کے لزوم اور ان کے استحقاق کا یہی وقت ہوتا ہے۔ اور ثلث مال سے وصیت اور عطیہ بھی اسی وقت نافذ ہوگا۔اگر ترکہ کم ہو توعطیات وصایا پر مقدم ہوں گے کیونکہ وہ مریض کے حق میں لازم ہیں جیسا کہ حالت صحت میں عطیہ دینا وصیت پر مقدم ہے۔
وصیت اور عطیے میں (فقہاء کے نزدیک) چار لحاظ سے فرق ہے:
(1)۔وصیت میں اس بات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ جس کے حق میں پہلے وصیت کی اسے پہلے دیا جائے، پھر دوسرے کو کیونکہ وصیت موت کے بعد ایک تبرع ہے جو یکبار گی کا تقاضا کرتا ہے، البتہ عطیے میں مقدم و مؤخر کا لحاظ ہو گاکہ جس کو پہلے عطیہ کیا گیا ہے اسے پہلے دیا جائے گا، اس لیے کہ عطیہ دینے والے کے حق میں لازم ہو چکا ہے۔
(2)۔ عطیے پر قبضہ کر لیا جائے تو عطیہ دینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا بخلاف وصیت کے ۔کہ یہ موت کے بعد لازم ہوتی ہے، لہٰذا موصی (وصیت کرنے والا) زندگی میں وصیت سے رجوع کر سکتا ہے۔
(3)۔عطیے کے قبول کا اس وقت اعتبار ہو گا جب عطیہ دیا جائے کیونکہ یہ فوری ملکیت کانام ہے۔ اس کے برعکس وصیت میں موت کے بعد تملیک ثابت ہوتی ہے، لہٰذا اس میں قبول کا اعتبار تب ہو گا جب موت واقع ہو جائے۔
(4)۔ عطیہ قبول کرتے ہی ملکیت ثابت ہو جائے گی بخلاف وصیت کے کہ اس میں موت سے قبل ملکیت ثابت نہ ہو گی کیونکہ اس کی تملیک موت کے بعد ہوتی ہے، پہلے نہیں۔
وصیت احکام
وصیت کے لغوی معنی" ملانے"کے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے زندگی کے (بعض معاملات ) کو موت کے بعد (بعض معاملات )سے ملایا جاتا ہے۔ اور وصیت کرنے والے نے بھی اپنے بعض تصرفات ،جو اس کی زندگی میں جائز تھے، ملادیے تاکہ وہ زندگی کے بعد بھی جاری رہیں۔
فقہاء کی اصطلاح میں وصیت کے معنی ہیں:" ترکے کا ایک مخصوص حصہ موت کے بعد (کسی شخص یا جگہ میں)