کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 163
"ایک دوسرے کو تحفے دو اس سے باہمی محبت بڑھے گی۔"[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَقبَلُ الهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيهَا" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے اور جوابی تحفہ دیا کرتے تھے۔"[2] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تهادوا فإن الهدية تسل السخيمة" "تحفہ دیا کرو تحفہ دینے سے کینہ و بغض جاتا رہتا ہے۔"[3] جب ہبہ لینے والا قبول کر کے اسے اپنے قبضہ میں لے لے تو واہب (ہبہ) کرنے والے) کے لیے جائز نہیں کہ اسے واپس لے، البتہ قبضہ سے پہلے رجوع کر سکتا ہے جس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ"سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے"غابہ" جگہ میں موجود اپنے مال میں سے بیس وسق کھجوریں انھیں ہبہ کر دیں۔ جب بیمار ہو گئے (وفات کا وقت قریب آیا) تو فرمایا: میری پیاری بیٹی! میں نے تجھے بیس وسق کھجوریں ہبہ کی تھیں اگر تو انھیں قبضے میں لے لیتی تو وہ تیری ہوتیں، چنانچہ قبضہ نہ کرنے کی وجہ سے آج وہ کھجوریں میں اپنے تمام ورثاء کا مشترکہ مال قرار دیتا ہوں، لہٰذا تم اسے کتاب اللہ کی تعلیم کی روشنی میں تقسیم کر دینا۔"[4] اگر کوئی چیز کسی کے پاس امانت تھی یا اس نے رعایتاً لی ہوئی تھی پھر مالک نے اسے ہبہ کر دی تو اس چیز کا اس کے پاس رہنا ہی قبضہ شمار ہو گا۔ اگر کسی کے ذمے قرض تھا تو قرض خواہ نے اسے ہبہ کر دیا تو مقروض بری الذمہ ہو جائے گا۔اور ہر وہ شے ہبہ ہو سکتی ہے جسے فروخت کرنا جائز ہو۔ ہبہ کو مستقبل کی شرط سے مشروط کرنا جائز نہیں، مثلاً:کوئی کہے :"میں نے تجھے یہ چیز ہبہ کر دی بشرطیکہ مجھے اس
[1] ۔صحیح البخاری الھبۃ ،باب من رای الھبۃ الغائبۃ جائزۃ ،حدیث2585۔ [2] ۔صحیح البخاری الھبۃ ،باب المکافاۃ فی الھبۃ حدیث 2585۔ [3] ۔(ضعیف) جامع الولاء والھبۃ باب فی حث النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم علی الھدیۃ حدیث 2130وارواء الغلیل 6/45، والمعجم الاوسط 1/416۔حدیث 1526واللفظ لہ۔ [4] ۔الموطا للامام مالک،الاقضية،2/313،حدیث: 1503، والد اپنی اولاد کو کوئی شے ہبہ کر کے واپس لے سکتا ہے اگرچہ اولاد نے اس پر قبضہ کر لیا ہو۔ اس لیے کہ اولاد اور اس کا مال والد ہی کا تو ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا إِلَّا الوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ"’’کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کوئی شے ہبہ کر کے واپس لے سوائے والد کے جو وہ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذی الولاء والھبۃ، باب ماجاء فی کراھیۃ الرجوع فی الھبۃ ،حدیث : 2132)لہٰذا مذکورہ اثر سے استدلال جامع نہیں ہے۔