کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 155
کیونکہ یہ بھی نیکی وتقویٰ میں تعاون کی ایک صورت ہے،نیز کسی کو اٹھا کر اس کی زندگی بچانا اسی طرح فرض ہے جیسے بوقت ضرورت کسی کو کھانا کھلانا یاکسی کو ڈوبنے سے بچانا فرض ہے۔ (1)۔لقیط بچہ تمام احکام شرعیہ میں آزاد متصور ہوگا کیونکہ آزادی اصل ہے اور غلامی ایک عارضہ ہے،جب کسی کی غلامی کا علم نہ ہوسکے تو اصل(آزادی) ہی کا اعتبار ہوگا۔ (2)۔اگر بچے کے ساتھ یا اس کے قریب ہی مال بھی ملا ہوتو اٹھانے والا اسی بچے کا مال سمجھ کر معروف اور مناسب طریقےسے اس پر خرچ کرے گا کیونکہ وہ بچے کا ولی اور سرپرست ہے۔اگر مال نہیں ہے تو بیت المال سے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو(جس نے لقیط کو اٹھایا تھا) فرمایا: "اذْهَبْ فَهُوَ حُرٌّ وَلَكَ، وَلَاؤُهُ وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ" "اسے لے جاؤ یہ بچہ آزاد ہے غلام نہیں۔اس کی سرپرستی تمہارے ذمے اور اخراجات ہمارے ذمے ہیں۔"[1] واضح رہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مراد"بیت المال" تھی۔ ایک روایت میں ہے ،سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"وَعَلَيْنَا رَضَاعُهُ "اسے دودھ پلانے کی ذمے داری ہم(بیت المال)پر ہے۔" اس روایت کی روشنی میں بچے کے اخراجات اسے اٹھانے والے شخص پر نہیں بلکہ یہ بیت المال کی ذمہ داری ہے۔اگر بیت المال کا انتظام نہ ہوتو ان مسلمانوں پراس کاخرچ ہے جو اس کے حالات سے واقف ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى" "نیکی اورپرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو۔"[2] علاوہ ازیں اخراجات کے ترک میں بچے کی ہلاکت ہے۔مزید برآں اس کے اخراجات اٹھانا اس کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی ہے،جیسے مہمان کی مہمان نوازی۔ (3)۔اگربچہ مسلمانوں کے کسی ملک سے ملا ہے یا کافروں کے کسی ایسے ملک میں سے ملا ہے جہاں کی اکثریت مسلمان ہے تو بچہ دینی اعتبار سے مسلمان متصورہوگا۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ " "ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔"[3]
[1] ۔الموطا للامام مالک،الاقضیۃ، باب القضاء فی المنبود ،حدیث 1482۔ [2] ۔المائدۃ 5/2۔ [3] ۔صحیح البخاری الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین؟حدیث 1385۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ بچہ کسی بھی جگہ سے ملے وہ ہر صورت مسلمان ہی متصور ہوگا۔(صارم)