کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 147
نہیں،بخلاف اجرت کے کہ اس میں عمل اور مدت دونوں کو جمع کرنا درست نہیں۔
(4)۔"جُعَالَه"میں عامل کام پورا کرنے کی ذمے داری نہیں لیتا جبکہ اجارے میں عامل ایک کام کو سرانجام دینا خود اپنے آپ پر لازم کرلیتاہے۔
(5)۔"جُعَالَه"میں عامل کی تعیین شرط نہیں جب کہ اجارے میں یہ شرط ہے۔
(6)۔"جُعَالَه"ایسا عقد ہے جسے دونوں فریق ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر بھی فسخ کرسکتے ہیں بخلاف اجارے کے کیونکہ یہ عقد ہر فریق پر لازم ہوتا ہے،لہذا ایک فریق دوسرے کی رضا مندی کے بغیر فسخ نہیں کرسکتا۔
(8)۔فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ جو شخص کسی کا کام کسی مقررہ انعام کے بغیر اور مالک سے اجازت لیے بغیر کرتا ہے وہ کسی معاوضے یا انعام کا مستحق نہیں،اس لیے کہ اس نے کام کی ابتدا تبرعاً(خوشی سے) کی تھی،لہذا یہ انعام کا مستحق نہیں ہے کیونکہ جس چیز کو آدمی نے اپنے لیے لازم نہیں کیا وہ اس کو نہیں ملتی،البتہ اس سے دو صورتیں مستثنیٰ ہیں:
(1)۔جب کسی کام کرنے والے یا مزدور نے خود کو اجرت پر کام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار کررکھا ہے۔جیسے دلال یا مزدور وغیرہ۔جب ہرایک مالک کی اجازت سے کام کرے گا تو اجرت کا حقدار ہوگا۔اگر اس نے اپنے آپ کو مزدوری کے لیے تیار نہیں رکھا ہواتو وہ اجرت کا مستحق نہ ہوگا،خواہ مالک کی اجازت سے کام کیا ہو،البتہ اگران کے درمیان کام کرنے سے پہلے معاوضہ طے پایا ہوتو اسے معاوضہ دیا جائے گا۔
(2)۔جو شخص خود کو خطرات میں ڈال کرکسی انسان کو یا اس کے سامان کو ہلاکت وتباہی سے بچاتاہے،مثلاً:کسی کودریا میں ڈوبنے سے یا آگ میں جلنے سے یا کسی اور پر خطرصورت حال سے نکال کر بچالیتاہے تو معروف اجرت کا مستحق ہے اگرچہ اس نے یہ کام مالک کی اجازت سےنہ کیا ہو کیونکہ اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو وہ شے یا سامان مالک سے ضائع ہوجاتا اور مالک کو کچھ نہ ملتا۔اور اس لیے بھی کہ اجرت دینے میں اس طرح کے مشکل کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جس نے کسی کا مال ہلاکت سے بچا کر اس کے مالک کو پہنچادیا تو وہ اس پر اجرت کا مستحق ہے اگرچہ بغیر شرط کے ہو۔دوقولوں میں سے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے ۔اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہ منصوص ہے۔"[1]
[1] ۔مجموع الفتاوی: 30/415۔