کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 144
" أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي السَّيْلِ الْمَهْزُورِ أَنْ يُمْسَكَ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسَلَ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَلِ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے"مہروز"(مدینہ منورہ کی مشہور وادی) کے سیلابی پانی کے بارے میں فیصلہ دیاکہ پہلے (قریب اور اوپروالا شخص) پانی روک کر فائدہ حاصل کرے یہاں تک کہ پانی ٹخنوں تک جمع ہوجائے،پھر اوپر کی زمین والا نیچے والی زمین کے لیے پانی چھوڑدے۔"[1]
(3)۔اگر پانی پر ایک سے زیادہ افراد کی ملکیت ہے تو ملکیت کے حساب سے باہم تقسیم کرلیں اور ہر ایک اپنے حصے کا پانی باہمی رضا مندی سے حاصل کرے اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔
(4)۔حاکم کو حق حاصل ہے کہ وہ بیت المال کے مویشیوں کی چراگاہوں کی حفاظت کرے،مثلاً:جہاد میں کام آنے والے گھوڑے اورجانور یا صدقے کے اونٹ وغیرہ،البتہ وہ مسلمانوں کو تنگ وپریشان کرکے تکلیف نہ دے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمَى النَّقِيعَ لِلْخَيْلِ(ای) لِخَيْلِ الْمُسْلِمِينَ "
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے"نقیع"(چراگاہ) مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مختص کردی تھی۔"[2]
اسی طرح حاکم کوچاہیے کہ ویران جگہوں پر اگنے والی گھاس پھوس کو صدقے کے اونٹوں،مجاہدین کے گھوڑوں ،جزیہ اور عام گم شدہ گھوڑوں اور اونٹوں وغیرہ کے لیے محفوظ کرادے بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور عام مسلمانوں کو کوئی تنگی اور تکلیف نہ دے۔
"جُعَالَه" کے احکام
لغت میں "جُعَالَه" اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی کو کوئی کام کرنے کے بدلے میں دی جائے جبکہ شرعاً "جُعَالَه"اس متعین مال کو کہتے ہیں جو ایک خاص کام انجام دینے والے غیرمعین فرد کے لیے مقرر کیاجائے،مثلاً:ایک شخص کہتاہے:" جو مجھے یہ دیوار بناکر دے گامیں اس کو اتنی رقم دوں گا۔"اب جو شخص بھی یہ دیوار بنائے گا، وہ اس مال کا مستحق ہوجائے گا۔
[1] ۔سنن ابی داود القضاء باب فی القضاء حدیث 3639 والموطا للامام مالک،الاقضیۃ باب القضاء فی المیاہ،حدیث 1491۔
[2] ۔مسند احمد:2/155۔