کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 135
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کی ضمان بالمثل( ہلاک شدہ شے کی مثل تاوان) کے فیصلے کی تعریف فرمائی ہے ۔قرآن کے لفظ: (نَفَشَتْ) کے معنی رات کو بکریاں چراناہے۔جس جگہ بکریوں نےنقصان کیا تھا وہ انگوروں کا باغ تھا۔ سیدناداود علیہ السلام نے ہلاک شدہ کھیتی کی قیمت ادا کرنے کافیصلہ کیا،چنانچہ جب بکریوں کی قیمت کااندازہ لگایا تو وہ ہلاک شدہ کھیتی کی قیمت کے بقدر تھا توبکریاں کھیت والے کو دے دیں،البتہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے ضمان بالمثل(تباہ شدہ چیز کی مثل تاوان) کا فیصلہ دیا وہ اس طرح کہ بکریوں والے باغ کی اصلاح کریں یہاں تک کہ وہ پہلی حالت میں لوٹ آئے،اس طرح کھیت کے خراب ہونے سے لے کر اس کے درست ہونے تک کا اس کا فائدہ ضائع نہیں ہوا بلکہ باغ والے کو بکریاں دے دیں تاکہ وہ ان کے اضافے سےکھیت کے اضافے کے بقدر حاصل کرلے اور اس کے کھیت کا جو نقصان ہوا ہے اس کا تاوان بکریوں کے اضافے سے پورا کرلے۔ان دونوں تاوانوں کاجب اندازہ لگایا تو وہ دونوں برابر تھے۔یہ وہی علم ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں خاص کیا ہے اور اس کی تعریف فرمائی ہے۔"[1] 1۔ اگر جانور کی لگام یا نکیل سوار یا کوچوان کے ہاتھ میں ہوتو جانور کے اگلے حصے(پاؤں یامنہ) کے ذریعے سے پہنچنے والے نقصان کا ذمے دار جانور کا مالک ہوگا،البتہ جانور کے پچھلے پاؤں کا نقصان ضائع ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"بے زبان جانور کے(پچھلے) پاؤں کا نقصان ضائع ہے۔" [2] جانور کو"عجماء" اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہرجانور عجماء کلام نہ کرنے والا ہوتا ہے جیسے گائے ،بکری وغیرہ۔ ان جانوروں کے نقصان کی ضمانت نہیں ہے جب یہ خود کوئی غلط کام کرلیں جیسا کہ یہ جانور اپنے مالک کے ہاتھ سے چھوٹ جائے اور کسی کا نقصان کردے تو اس کی ذمے داری کسی پر نہیں،ہاں! اگر جانور زخمی کرنے والا(ہڑکایا) ہوتو اس کے مالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ نہ تو وہ رات کو اس کی حفاظت میں کمی کرے اورنہ بازار میں چلتے ہوئے اس سے غافل رہے۔اسی طرح جہاں مسلمانوں کا اجتماع ہووہاں بھی اس کی حفاظت کرے۔یہی مسئلہ کئی علماء نے بیان کیا ہے۔ان جانوروں کے نقصان کی ضمانت نہیں ہے جب یہ خود ہی مالک کے ہاتھ سے چھوٹ جائیں اور سیدھے ہی بھاگتے جائیں نہ ان کو کوئی پکڑنے والا ہو نہ کوئی چلانے والا ہو،سوائے کاٹنے والے کے۔" اگر ایک شخص پر کسی آدمی یاجانور نے حملہ کیا جس سے اس کی جان کوخطرہ ہواتو اگراس شخص نے دفاع کرتے
[1] ۔مجموع الفتاویٰ 15/485۔باختلاف یسیر۔ [2] ۔(ضعیف) سنن ابی داود ،الدیات، باب فی الدابۃ تنفح برجلھا، حدیث 4592 وسنن الدارقطنی: 3/152۔حدیث: 3275،3280،3350۔