کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 133
1۔ جو شخص کسی کے مال کو ضائع کرنے کا سبب بنا،اس پر بھی ضمان ہے،مثلاً: کسی نے بند دروازہ کھول دیا تو جو پرندہ اس میں تھا وہ ہاتھوں سےنکل گیا ،یا کسی نے بند مشکیزے کا منہ کھول کر اس میں موجود شے بہا کر ضائع کردی تو وہ ضامن ہوگا۔اسی طرح کسی نے جانور کی رسی یازنجیر کھول دی اور وہ جانور بھاگ گیا یاگم ہوگیا یاکسی نے تنگ گلی یا راستے میں جانور باندھ دیا اوراس کی گوبر گندگی سے کوئی انسان پھسل گیا یا جانور نے ٹانگ مارکر نقصان پہنچادیا تو جانور باندھنے والاضامن ہوگا کیونکہ اس نے راستے میں جانور باندھ کر زیادتی کی ہے ۔کسی نے راستے میں گاڑی کھڑی کردی جس کے نتیجے میں اس سے کوئی دوسری کار یا کوئی شخص ٹکرا گیا تو نقصان کی صورت میں گاڑی کامالک ضامن ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مَنْ أَوْقَفَ دَابَّةً فِي سَبِيلٍ مِنْ سُبُلِ الْمُسْلِمِينَ أَوْ فِي سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِهِمْ فَأَوْطَأَتْ بِيَدٍ أَوْ رِجْلٍ فَهُوَ ضَامِنٌ " "جس شخص نے مسلمانوں کے عام راستے میں یا بازار میں جانور کھڑا کیا اور اس نے کسی کو اپنے ہاتھ یا پاؤں تلے روند دیا تو مالک ضامن ہوگا۔"[1] اگر کسی نے راستے میں مٹی،لکڑی یا پتھر پھینک دیا یاگڑھا کھودا جس کی وجہ سے راستے میں سے گزرنے والے کو نقصان پہنچایا کسی نے راستے میں خربوزے وغیرہ کا چھلکا پھینک دیا یا راستے میں پانی ڈال کر کیچڑ کردیاجس سے کوئی پھسل گیا اور اسے نقصان پہنچا توان تمام صورتوں میں کام کرنے والا نقصان کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ یہ سراسر اس کی زیادتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ آج کے دور میں مندرجہ بالا امور میں انتہائی سستی اور لاپروائی کررہے ہیں،چنانچہ اکثر دیکھاگیا ہے کہ لوگ راستوں میں گہرے گڑھے کھود دیتے ہیں۔مختلف اشیاء یا سامان رکھ کر راستے بند کردیتے ہیں۔مختلف مواقع پر اپنے مقاصد کے لیے سڑکیں بلاک کردیتے ہیں اورگزرنے والوں کو تنگی وتکلیف میں ڈالتے ہیں۔ان کا نقصان کرتے ہیں اور انھیں اس بات کا قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں۔ 2۔ اگر کسی کے کاٹنے والے کتے نے کسی راہ گزر شخص کو کاٹ کر نقصان پہنچایا تو مالک نقصان کا ضامن ہوگا کیونکہ اس نے ایسے کتے کو کیوں رکھا ہے۔ 3۔ کسی نے کسی مقصد کے لیے اپنی زمین میں کنواں کھودا تو اگر کسی کا نقصان ہوگیا تو کنواں کھودنے والاذمے دار
[1] ۔(ضعیف) سنن دارقطنی: 3/178 حدیث 3352 والسنن الکبریٰ للبیہقی 8/344۔